Sunday 29 January 2012

Shairi Ki khasoosiyat - شاعر کی خصوصیات


Shairi Ki khasoosiyat - شاعر کی خصوصیات



1st Year Urdu Notes (اردو)

شاعر کی خصوصیات


خواجہ میر درد

ایک تعارف



تا قیامت نہیں مٹنے کا دلِ عالم سے
درد ہم اپنے عوض چھوڑے اثر جاتے ہیں
خواجہ میر درد دہلی کے ان معروف شعراءمیں سے ہیں جن کی وجہ سے دہلی کی عمارتِ سخن قائم تھی۔ میر درد کو کئی اعتبار سے امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ وہ ایک بلند فکر‘ درویش صفت اور صاحبِ حال انسان تھے جن کی زندگی توکل کااعلیٰ نمونہ ہے۔ درد نے جب شاعری کی دنیا میں اپناکمال دکھایا تو اردو شاعری رنگِ تغزل کے ساتھ ساتھ رنگِ تصوف سے بھی مالا مال ہو گئی۔ ان کی شاعری میں ایک طرف تصوف کا گلاب مہک رہا ہے تو دوسری طرف معرفت کے موتی چمک رہے ہیں۔ کہساروںکا سا تکلم‘ آبشاروں کاسا ترنّم اور چاندنی جیسی پاکیزگی ان کے کلام کو معطر و منور کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کو دنیائے سخن میں شہنشائے تصوف کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور عام معاصر اور متاخر تذکرہ نگار ان کاذکر کمالِ احترام سے کرتے ہیں۔
نواب جعفر علی خان درد کے بارے میں کہتے ہیں۔
اُن کے پاکیزہ کلام کے مطالعے کے لئے پاکیزہ نگاہ درکار ہے۔


درد کے محاسنِ کلام

خواجہ میر درد کے طرزِ کلام کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔


(۱) تصوف کا رنگ

خواجہ میر درد کی زندگی اور شاعری دونوں تصوف کے انوار میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اسی لئے وہ اردو کے سب سے بڑے صوفی شاعر کہلاتے ہیں۔ ان کا منفرد اندازِ بیان ان کو دیگر صوفی شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ وہ اپنے طرزِ فکر کو نرم و ملائم مصرعوں میں بیان کرتے ہیں جو ان کی قلبی کیفیتوں کا آئینہ دار ہیں۔ بطور امثال
ارض و سما کہاں تیری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے

جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا


(۲) سادگی

درد اپنے احساسات کی ترجمانی نہایت سہل ،شستہ‘ ہلکی پھلکی اورعام فہم زبان میں کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں سلاست اور روانی ہے جو ان کے کلام کو نہایت پر اثر بناتا ہے اور قاری نہایت آسانی سے سمجھ جاتا ہے۔ بقول درد
آتشِ عشق جی جلاتی ہے
یہ بلا جان پر ہی آتی ہے

دل زمانے کے ہاتھ سے سالم
کوئی ہوگا کہ رہ گیا ہوگا
ذکر وہ میرا کرتا تھا صریحاً لیکن
میں نے پوچھا تو کہا خیر یہ مذکور نہ تھا


(۳) حوصلہ مندی

درد کا دور تاریخی اعتبار سے پر آشوب دور تھا۔ حالات کی ناسازگاری اور فکر معاش کی وجہ سے کئی شعراء لکھنو اور دوسرے مقامات کا رخ کر رہے تھے۔ لیکن ان تمام حالات کے باوجود درد کی پائے استقامت میں کوئی لغزش نہ آئی اور وہ تمام عمر دہلی میں رہ کر حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔ ان کی اس کیفیت کا رنگ ان کے کلام میں بھی نظر آتا ہے
آیا نہ اعتدال میں ہرگز مزاجِ دہر
میں گرچہ گرم و سردِ زمانہ سمو گیا

حیران آئینہ دار ہیں ہم
کس سے دوچار ہیں ہم

جان پر کھیلا ہوں میں‘ مگر جگر دیکھنا
جی رہے یا نہ رہے پھر بھی ادھر دیکھنا


(۴) موسیقیت اور ترنّم

درد روکھے اور خشک مزاج صوفی نہ تھے۔ وہ فنونِ لطیفہ سے آشنا تھے خاص طور پر موسیقی سے گہرا لگاو رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں حسن ونغمگی کا احساس ہے۔ ان کی غزلیں موسیقی کی خاص دھنوں اور سرتال پر پوری اترتی ہیں۔ بطور مثال
سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا
بس ہجوم یاس جی گھبرا گیا

تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے
کس لئے آئے تھے کیا کر چلے

قتلِ عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر تیرے عہد کے آگے تو یہ دستور نہ تھا


(۵) بے ثباتی حیات

درد کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی کا رنگ جھلکتا ہے۔ ایک صوفی شاعر ہونے کی حیثیت سے وہ اپنے اشعار میں اس نظریہ کی ترجمانی کرتے ہیں کہ دنیوی زندگی عارضی ہے اوراصل زندگی وہ ابدی اور دائمی زندگی ہے جو بعد الموت شروع ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر
وائے نادانی کے وقت مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

ساقی اس وقت کو غنیمت جان
پھر نہ میں ہوں‘ نہ تو‘ نہ یہ گلشن

درد کچھ معلوم بھی ہے یہ لوگ
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے


(۶) امتزاجِ مجاز و حقیقت

شاعر کے کلام میں عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی کا رنگ کچھ اس طرح سے ہم آہنگ ہے کہ ان دونوں میں امتیاز کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ درد کا کمال یہ کہ ان اشعار کے مطالعے کے بعد قاری کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ محبوبِ حقیقی سے ہمکلام ہیں یا محبوبِ مجازی سے۔ مثال کے طور پر
اپنے ملنے سے منع مت کر
اس میں بے اختیار ہیں ہم

جی کی جی میں رہی بات نہ ہونے پائی
حیف ہے ان سے ملاقات نہ ہونے پائی

کچھ ہے خبر کہ اٹھ اٹھ کے رات کو
عاشق تیری گلی میں کئی بار ہو گیا


(۷) سوز و گداز

اثرِ آفرینی اوردردمندی کلامِ درد کی نمایا ںخصوصیات ہیں۔ ان کی شاعری سادگی اور حقیقت نگاری کی وجہ سے دردواثر اور سوزوگداز کا مرقع ہے۔ ان کی ہر بات دل سے نکلتی ہے اور دل میں اترتی ہے۔ بقول محمد حسین آزاد۔
درد تلواروں کی آبداری نشتر میں بھر دیتے ہیں۔
بطور مثال درج ذیل نمونہ کلام پیش ہے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

خارِ مژہ پڑے ہیں مری خاک میں ملے
اے دشت اپنے کےجےو داماں کی احتیاط


(۸) وحدت الوجود

درد کا محبوب اللہ تعالیٰ ہے۔ ان کے کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ وحدت الوجود کے قائل ہیں۔ ان کی نگاہ میں کائنات کا ہر ذرّہ ِِجمال نورِخداوندی کا مظہر ہے اور ہر شے میں ایک ہی ہستی جلوہ گر ہے۔ بقول درد
جوں نورِ بصر تیرا تصور
تھا پیشِ نظر جدھر گئے ہم

بیگانہ گر نظر پڑے تو آشنا کو دیکھ
بندہ گر آوے سامنے تو بھی خدا کو دیکھ


(۹) غزل کا رنگ

خواجہ میر درد کی شاعری میں ایک طرف تصوف کا گلاب مہک رہا ہے تو دوسری طرف رنگِ تغزل پورے گلشن کو مہکا رہا ہے۔ ان کے کلام میں غزل کے تمام لوازمات موجود ہیںخواہ وہ محبوب سے ناراضگی کا احساس ہو یا شامِ غم کی کیفیات۔ مثال کی طور پر
درد کوئی بلا ہے وہ شوخ مزاج
اس کو چھیڑا برا کیا تو نے

رات مجلس میں تیرے حسن کے شعلے کے حضور
شمع کے منہ پر جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا


معروف تنقید نگاروں کی آرائ

ایک مشہور و معروف شاعر ہو نے کی حیثیت سے میر درد کے بارے میں مختلف نقادوں نے اپنی آراء پیش کی۔ میرحسن لکھتے ہیں۔
درد آسمانِ سخن کے خورشید ہیں۔
مرزا علی لطف گلشنِ ہند میں لکھتے ہیں۔
اگرچہ دیوانِِ درد بہت مختصر ہے لیکن سراپا دردواثر رکھتا ہے۔
بقول رام بابو سکسینہ۔

درد کی غزلیں زبان کی سادگی اور صفائی میں میر کا کلام کا مزہ دیتی ہیں۔

                                                           -----------------------------------



Shairi Ki khasoosiyat - شاعر کی خصوصیات

علامہ محمد اقبال

  1. ایک تعارف

اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے
عشق کے دردمند کا طرزِ کلام اور ہے
وہ اپنے قلم سے جذبات و احساسات کے موتیوں کو حروف کی مالا میں پروتے۔ اُن کے پُرجوش قلم سے اُن کے دل کی پکار سنائی دیتی۔ اُنہوں نے کلام کے عکس میں اِس امّت کو ایک پاکیزہ نسل عطا کی‘ اس دنیا کے شاہینوں کو اُڑان و پرواز سکھائی‘ نوجوانوں کی بلندیوں سے ہمکنار کرایا‘ ایک قوم کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرایا اور ان افراد کو خودی سے نوازا جو اپنی لاشیں اپنے ہی کاندھوں پر اُٹھائے استحکام سے عاری سماج میں گردش کر رہے تھے۔ حق گوئی و بے باکی کا پیامبر‘ خودی کا یہ پیکر‘ مسلمانوں کا یہ حکیم‘ اقدارِ اسلامی کا یہ مبلغ‘ عملِ پیہم اور جہدِ مسلسل کا یہ داعی‘ شاہینِ انسانی کا یہ خالق‘ علم و معرفت کی یہ جویا‘ اخوت و بھائی چارگی کی یہ علامت‘ یقین و ایمان کا یہ پیکر اور دنیائے سخن کا یہ مُحسن ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال ہے۔ وہ اقبال جس نے تصوف و معرفت کے پھول کھلائے‘ جس نے انقلابی شاعری کی بنیاد رکھی اور جس نے اردو غزل گوئی کو نکھار بخشا۔ یہی ہے وہ مردِ مُجاہد ہے جس نے آفاقی شاعری کے گوہر ہائے آبدار تخلیق کئے اور یہی ہے وہ مومن جس کے بارے میں کہا جاتا ہے
اس قدر رمزِ خودی سے آشنا کوئی نہ تھا
راہِ حق میں نازش بانگ درا کوئی نہ تھا
خوابِ غفلت سے جو اہلِ درد کو چونکا گیا
صرف وہ اقبال تھا اس کے سوا کوئی نہ تھا


اقبال کے ادوارِ شاعری

دورِ اوّل: اقبال مولانا الطاف حسین حالی کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس دور میں انہوں نے غزلیں کہیں اور مسلمانوں کی خامیوں کا ذکر کیا۔
دورِ دوم: فارسی زبان میں اشعار نظم کیے۔ اپنی شاعری کے ذریعے سے مغربی تہذیب کی مخالفت کی اور ان کے خد و خال کو واضح کیا۔
دورِ سوم: اپنی شاعری کو مسلمانوں کی خدمت کا ذریعہ بنایا اور مسلمانانِ ہند کی ذہنی و فکری اصلاح کے لئے سعی کی۔
دورِ چہارم: یہ ان کی شاعری کا آخری دور تھا۔ اس میں انہوں نے فلسفہ�¿ خودی پیش کیا اور انسان کی افضلیت اور آفاقی حیثیت کو واضح کیا۔


اقبال کے محاسنِ کلام

علامہ اقبال کے طرزِ کلام کی نمایاںخصوصیات پیشِ نظر ہیں۔


(۱) فلسفیانہ طرزِ بیان

اقبال فطرتاً فلسفیانہ سوچ کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میںمنفرد اور فطری اندازِ بیان اختیار کرتے ہوئے اشعار کو ان تفکرات کا آئینہ دار بنایا۔ پہلی مرتبہ اردو غزل گوئی میںفلسفیانہ خیالات کو لفظوں کے احاطے میں مقید کیا اور اسلامی‘ نفسیاتی‘ تہذیبی‘ اخلاقی‘ سیاسی اور سماجی نظریات کو غزلوں کا رنگ دیا۔ ملک راج آنند لکھتے ہیں۔
اِقبال کی شاعری کی بنیاد فلسفے پر ہے۔ اسی فلسفے کی فضا میں اِقبال کی شاعری نے نشوونما پائی‘ بلندی پائی‘ حوصلہ پایا‘ نظر پائی اور ایمان پایا۔
مثال کے طور پر نمونہ کلام پیش ہے
فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

نہیں ہے ناامید اقبال اپنے کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی


(۲) مقصدیتِ دین

علامہ اقبال کو دینِ اسلام سے بے حد لگاﺅ تھا اور آپ عشقِ الٰہی سے سرشار مجاہد تھے۔ اس مردِ مومن کا مقصدِ زندگانی امّت مسلمہ کو خوابِ غفلت سے بیدار کر کے میدانِ عمل میں سر گرم کرنا تھا۔ آپ کے کلام کا مقصد اہلِ سماج کا ایمان اس بات پر پختہ کرنا تھا کہ زندگی کی پیچیدگیاں صرف اور صرف دینِ حق کی پیروی سے سلجھ سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر وہ بیان کرتے ہیں
کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

ہاتھ ہے اللہ کا بندہ�¿ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کارکشا و کارساز


(۳) اثر آفرینی

حکیم الامّت کا قلم جب ان کی معطر جبلی فکر کی ترجمانی کرتا ہے تو ایسے گہر ہائے آبدار تخلیق پاتے ہیں جن کی تابانیاں اثر آفرینی کادل آویز مرقع بن کر روح کو وجد میں لے آتی ہیں۔ اقبال کے کلام کے مطالعے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے گویا فنکار نے الفاظ میں اپنا خونِ جگر شامل کر دیا ہے۔ بقول یوسف حسین خان۔
زورِ کلام اور اثرِ آفرینی کا اعلیٰ نمونہ دیکھنا ہو تو اقبال کی نظم ’فاطمہ بنتِ عبداللہ‘ کو پڑھئے۔ اس کا ایک ایک لفظ درد و خلوص میں ڈوبا ہوا ہے۔
نمونہ کلام درج ذیل ہے
اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امراءکے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کہ ہر خوشہ�¿ گندم کو جلا دو


(۴) فکرِخودی

شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے کلام میں فلسفہ خودی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ حکیم الامّت استحکام سے عاری بے یقین اور مایوس قوم کا علاج خودی کی تعلیم کو قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبال کے نظریہ کے مطابق اپنی ذات کے ادراک و عرفان کے بغیر قوم کا جذبہ محرکہ سرد پڑ جاتا ہے۔ ان کے نزدیک خودی یقین کی گہرائی ‘ سوزِ حیات ‘ ذوقِ تخلیق اور ایک عبادت ہے۔ ان کے کلام سے ان کی یہ سوچ جھلکتی ہے
خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات
خودی کیا ہے بیداری�¿ کائنات

یہ موجِ نفس کیا ہے‘ تلوار ہے
خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے


(۵) عاشقانہ رنگ

اقبال کی شاعری میں عشقِ حقیقی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ اُن کے نزدیک عشق ایک والہانہ کیفیت کا نام ہے جو کسی مسلمان کو اپنے قصدومقصد کی تکمیل کرنے میں سہارا دیتی ہے۔ عشق ایک متحرک قوّت ہے جو مردِمومن کو خوب سے خوب تر کی تلاش میں مصروف رکھتی ہے۔ اقبال کا نظریہ یہ ہے کہ عقل اور عشق دو متضاد قویٰ ہیں۔ عقل انسان کو مصلحتوں کے آئینے میں پیچھے ہٹنے پر مجبور کرتی ہے جبکہ عشق اُسے ڈوبتے ہوئے آفتاب جلوہ گر کرنے کی ذمہ داری سونپتا ہے۔ اُن کے کلام میں اِن کیفیات کا رنگ نظر آتا ہے
عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلین ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بُت کدہ تصوّرات

عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھتا تھا میں


(۶) جوشِ بیان

زورِ بیان اقبال کی شاعری کی موثر ترین خوبی ہے اور وہ اپنی اس خصوصیت میں لاثانی ہیں۔ علامہ اقبال جب اپنے قلم سے جذبات و احساسات کے موتیوں کو حروف کی مالا میں پروتے ہیں تو ان کے پُرجوش قلم کی تخلیق سے ان کے دل کی پکار سنائی دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور امتِ مسلمہ سے ان کا والہانہ عشق‘ جنونی لگاﺅ اور بے ساختہ اُلفت ان کے قلم کی زینت بن جاتا ہے۔ اُن کا شعر اگر سمجھ میں نہ آئے تب بھی ضرور متاثر کرتا ہے۔ عکسِ کلام درج ذیل ہے
نہ تخت و تاج میں‘ نہ لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے

خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا
مقامِ رَنگ و بو کا راز پا جا


(۷) تصورِ عملِ پیہم و شاہین

اقبال ایک بامقصد شاعر تھے۔ آپ ملّت کے نوجوانوں کو اسلام کی آفاقی تعلیمات کی روشنی میں مثالی کردار کی علامت بنانا چاہتے تھے۔ آپ اُس دور کے نوجوانوں کو شاہین کی خودداری‘ بلند پرواز اور غیرت کی مثال دے کر عملِ پیہم کا پیام دیتے ہیں۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں۔
شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ نہیں۔ اِس پرندے میں اسلامی فکر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
عکسِ کلام پیش ہے
پرواز ہے دونوں کی اسی اِیک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور

یقین محکم‘ عمل پیہم‘ محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں


(۸) رفعتِ تخیّل

منظر کشی اقبال کے کلام کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ وہ مناظرِ فطرت کی لفظی تصاویر ایسی مہارت اور خوبصورتی سے کھینچتے ہیں کہ چشم تصور اُن کو ہو بہو اپنے سامنے محسوس کرتی ہے۔ مثال کے طور پر
پانی کو چھو رہی ہو جُھک جُھک گُل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو

سورج نے جاتے جاتے شامِ سیہ قبا کو
طشتِ اُفق سے لے کر لالے کے پھول مارے


معروف نقادوں کی آراہ

شاعر مشرق‘ حکیم الامّت‘ سر‘ ڈاکٹر علامہ محمد اِقبال وہ ہستی ہیں جن کے اشعار ہر دل کی دھڑکن ہیں اور جن کی عظمت کا اعتراف ہر زبان پر ہے۔ ان کے بارے میں جس نے بیان دیا توصیف کا دیا‘ جس قلم نے لکھا تعریف میں لکھا اور جہاں ان کا ذکر ہوا خوب ہوا۔ اقبال زندگی اور اُس کے تقاضوں کے سچے شاعر تھے اور اُن کی شاعری گوناگوں خصوصیات کی حامل ہے۔
بقول بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق۔
اِقبال برصغیر ہی کے نہیں بنی نوعِ انسان کی لازوال تہذیب کے ایک برگزیدہ مفکر اور شاعر کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
پروفیسر احتشام حسین رقم طراز ہیں۔
اقبال نے ہمیں وہ لب و لہجہ اور آہنگ عطا کیا جو کرئہ ارض پر انسانی اقوام کی تقدیر بدل دیتا ہے۔ اردو شاعری میں ایسا لب و لہجہ اور آہنگ پہلے کبھی نہیں تھا۔

قاضی عبدالغفار فرماتے ہیں۔
اقبال کی شاعری کا ہر دور فلسفہ حیات کا حامل ہے۔  

                                                                                 ---------- ----------




Shairi Ki khasoosiyat - شاعر کی خصوصیات
نظیر اکبر آبادی

                            ایک تعارف

نظیر اکبر آبادی اردو ادب کے پہلے عوامی شاعر ہیں۔ وہ اردو ادب کی آبرو ہیں۔ ان سی اردو ادب میں ایک نئے دبستان فکر کی بنیاد پڑتی ہے۔ وہ ہمارے قومی اور تہذیبی رنگ کا سرچشمہ ہیں۔ وہ جدید اردو ادب کے پیغمبر ہیں ۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ جدید شاعری کی ابتداءمحمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی سے ہوئی لیکن نظیر اکبر آبادی ان سے بہت پہلے جدید شاعری کا آغاز کرچکے تھے۔ انہوں نے بیشمار ایسی نظمیں کہیں جن کی بنیاد پر اردو کے پہلے عوامی شاعر کہے جاتے ہیں اور آج جو یہ شاعری ہمیں نظر آتی ہے اس کی ابتداءکرنے والے بھی نظیر اکبر آبادی ہی ہیں۔ اسی لئے انہیں جدید اردو شاعری کا پیش رو کہا جاتا ہے۔
مجنوں گورکھپوری کی رائے ہے:
نظیر پہلے شاعر تھے جن کو میں نے زمین پر کھڑے زمین کی چیزوں کے متعلق بات چیت کرتے ہوئے پایا اور پہلی مرتبہ میں نے محسوس کیا کہ شاعری کا تعلق روئے زمین سے بھی ہے۔
مشہور و معروف نظمیں

نظیر کی چند ایسی نظوم جن سے انہوں نے شہرتِ دوام پائی وہ ذیل میں درج ہیں:

  • من موجی

  • پنجری کا عالم

  • ہر حال میں خوش
  • کوڑی نہ رکھ کفن کو
  • بنجارہ نامہ
  • اسرارِ قدرت
  • برسات کی بہاریں
  • آدمی نامہ
  • برسات کا تماشہ
  • ہنس نامہ


نظیر کے محاسنِ کلام

نظیر اکبر آبادی کے محاسن کلام ذیل میں درج ہیں۔


(۱) نیچرل شاعری

نیچرل شاعری جس کی بنیاد پر آزاد اور حالی نے ڈالی تھی۔ اس کے پیش رو بلکہ موجد نظیر اکبر آبادی ہی تھے۔ وہ اپنی نظموں میں اخلاقی تلقین اور سماجی اصلاح کا بار بار ذکر کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے لفظی صناعی کے بجائے ”خیال“ اور جذبے کو شاعری کا معیار قرار دیا اور مبالغہ آرائی اور مضمون افرینی سے ہٹ کر سادگی اور فکری وجدت کی نظیر قائم کی۔ انہوں نے اپنی نظوم میں مناظرِ فطرت کے بے مثال مرقع پیش کئے۔ عوام کے مشاغل‘ میلے ٹھےلے‘ تہوار اور آپس میں میل ملاپ کی ہو بہو تصاویر انہوں نے سیدھے سادھے مﺅثر انداز میں کھینچ دی ہیں کہ ان پر مبالغے کا گمان نہیں ہوتا۔ عکسِ کلام درج ذیل ہے
دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
نادار و بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
نعمت جو کھارہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکڑے جو مانگتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی (آدمی نامہ)


پروفیسر سجاد باقر رضوی کے مطابق:
نظیر فطری نقطہ نگاہ سے انسان کو نہیں دیکھتے‘ وہ انسانی نقطہ نگاہ سے فطرت کو دیکھتے ہیں۔


(۲) روایتی شاعری سے بغاوت

نظیر کی شاعری کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے گل و بلبل‘ کاکل و عارض اور وصل و فراق کی شاعری کو بالکل ترک کردی۔ انہوں نے غزل کی بجائے نظم کو اظہار کا وسیلہ بنایا انہوں نے اردو نظم نگاری کو بلندی و وسعت عطا کی اور اس کی ذریعے تعمیری و افادی ادب تخلیق کیا۔ انہوں نے اپنے کلام سے وعظ و نصیحت کا ایسا کام لیا کہ ایک زمانہ اس کا معترف ہے اس نے کلام کا ہر رنگ بے مثال ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اثروجذب مین ڈوبا ہوا ہے اور یہ چیز اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتی جب تک شاعر کا دل مخلص نہ ہو۔ نظیر میں یہ صفت موجود تھی۔ نظیر کی تمام شاعری حالی کے اس شعر کی تفسیر ہے
اے شعر! دل فریب نہ ہو تو تو غم نہیں
پر تجھ پہ ہے جو نہ ہو دل گداز تو
مجنوں گورکھپوری فرماتے ہیں:
غدر کے بعد اردو شاعری نے جو جنم لیا اس میں شعوری اور غیر شعوری طور پر نظیر کا اثر کام کررہا ہے۔


(۳) ادب برائے زندگی

نظیر نے ہماری نظم نگاری کو تمام زندگی اور اس کے مسائل کا ترجمان بنادیا اوریوں ادب زندگی کا آئینہ بن گیا۔ وہ صرف موضوعات کے انتخاب کے ذریعے ہی ادب اور زندگی کی قربت کا وسیلہ نہ بنے بلکہ انہوں نے بول چال کے عام الفاظ کو اپنی شاعری میں استعمال کیا۔
ڈاکٹر فیلن نے نظیر کی شاعری کے بارے میںایک جگہ تحریر کیا ہے:
صرف یہی ایک شاعر ہے جس کی شاعری اہلِ فرنگ کے نصاب کے مطابق سچی شاعری ہے۔ نظیر کی ایک نظم زر کا ایک بند ملاحظہ ہو
دنیا میں کون ہے جو نہیں مبتلائے زر
جتنے ہیں سب کے دل میں بھری ہے ہوائے زر
آنکھوں میں دل میں جان میں سینے میں فائے زر
ہم کو بھی کچھ تلاش نہیں اب سوائے زر
جو ہے سو ہو رہا ہے سرا مبتلائے زر
ہر اک یہی پکارے ہی دن رات ہوئے زر


(۴) نرالے اسالیب

نظیر کے دل کی بات ہرشخص کے دل کی بات ہوتی ہے۔ اندازِ بیان میں اگرچہ اچھوتا پن بھرا ہوتا ہے۔ یہی شاعری کی اصل خصوصیت ہوتی ہے یعنی جذبات و خیالات سادہ ہوں اور اسالیب نرالے۔ نظیر نے اپنی نظموں میں یہی کیا ہے۔ انہوں نے خود ہمارے دل کی باتیں ہم کو بتائی ہیں۔ جن باتوں کو عموماً ہم بھولے رہتے ہیں نظیر ان باتو ں کو اس طرح یاد دلاتے ہیں کہ پھر کبھی ہم ان کو بھول نہیں سکتے۔ ان کی شاعری اس شعر کی تفسیر ہے
افسانہ تیرا رنگین روداد تیری دلکش
شعر و سخن کو تونے جادو بنا کے چھوڑا
ان کی نظم برسات کی بہاریں سے اقتباس ہے
گر کر کسی کے کپڑے دلدل میں ہیں معطر
اک دو نہیں پھسلتے کچھ اس مےں آن اکثر
پھسلا کوئی‘ کسی کا کیچڑ میں منہ گیا بھر
ہوتے ہیں سیکڑوں کے سر نیچے پاﺅں اوپر
کیا کیا مچی ہیں یاروں برسات کی بہاریں


(۵) عوامی شاعری

نظیر اکبر آبادی کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں عوام کے مسائل کو عوامی زبان میں ادا کیا۔ وہ ہندومسلم سب کے غم و ماتم میں شریک نظر آتے ہیں۔ عید‘ شب برات‘ ہولی‘ دیوالی‘ دسیرہغرض ہر تہوار پر نظم لکھتے ہیں۔ ایک خواجہ معین الدین اجمیری کی تعریف کرتے ہیں تو دوسری طرف گرو نانک کو بھی نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
اختر ادرینوی کہتے ہیں:
نظیر نے جنتا(عوام) کے سورج سے اپنی زندگی اور شاعری کا دیا جلایا ہے۔


(۶) منظر نگاری

نظیر کو زبان و بیان پر بڑی قدرت حاصل تھی۔ وہ منظر نگاری میں بڑا کمال رکھتے ہیں۔ ان کا مطالعہ جزئیات بڑا وسیع ہے۔ جزئیات نگاری میں وہ بے شک میر انیس کے ہم پلہ ہیں۔
نیاز فتح پوری کہتے ہیں:
نظیر کے کلام کی خصوصیت ان کا مطالعہ جزئیات ہے جس وقت وہ کسی منظر کی تصویر کھینچتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے ایک ایک زرے کا حساب لے رہا ہے۔
عکسِ کلام درج ذیل ہے
مفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے آن پر
دیتا ہے اپنی جان وہ ایک ایک نان پر
ہر آن ٹوٹ پڑتا ہے روٹی کے خوان پر
جس طرح کتے لڑتے ہےں ایک استخوان پر
ویسا ہی مفلسوں کو لڑاتی ہے مفلسی


(۷) ظرافت

نظیر کی طبیعت میں ظرافت کا مادہ بہت نمایاں ہے۔ اس ظرافت کا اثر ان کے فن مےں بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کی واقعیت پسندی فطرت کے خزانے سے انہیں ظرافت کا سرمایہ فراہم کرتی ہے۔
پروفیسر سہیل احمد کہتے ہیں:
نظیر کی ظرافت تنقید سے زیادہ محض انکشاف حقیقت سے پیدا ہوتی ہے۔
نظیر کے کلام کی ایک جھلک ذیل میں ملاحظہ فرمایے
مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآن اور نماز یاں
اور آدمی ہی ان کی چراتے ہیں جوتیاں
جو ان کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی


(۸) بے ثباتی دنیا کے نقوش

نظیر تقریباً میر کے ہم عصر تھے۔ اس دور مین شمالی ہندوستان مختلف جنگجو طاقتوں کی ہوس کا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ ایسے پر آشوب دور میں بے ثباتی دنیا کا نقش ہرشخص کے دل میں بیٹھا ہوا تھا حتی کہ نظیر جیسا خوش باش اور مست آدمی بھی اس رنگ سے دامن نہ بچاسکا۔ لیکن نظیر غریب کو ڈرانے کے لئے نہیں بلکہ امیر کے دل میں خوفِ خدا پیدا کرنے کے لئے بے ثباتی دنیا کا ذکر چھیڑدیتے ہیں۔
نظیر کی ایک نظمبنجارہ نامہ کا ایک اقتباس ذیل مین درج ہے
کچھ کام نہی آوے گا تیرے یہ لعل و زمرد سیم و زر
جب پونجی بات مین بکھرے گی پھر آن بنے گی جان
نقارے‘ نوبت‘ بان‘ نشان‘ دولت‘ حشمت‘ فوجیں‘ لشکر
کیا مسنہ‘ تکیہ‘ ملک‘ مکان‘ کیا چوکی‘ کرسی‘ تخت‘چھپڑ
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ


(۹) قلندرانہ لطف اندوزی

نظیر بنیادی طور پر قلندر تھی۔ روکھی سوکھی کھاکر مست رہتے۔ ان کی انگلیان حالات کی نبض کو محسوس کرتیں لیکن وہ کسی چیز سے متاثر معلوم نہیں ہوتے۔ نظیر نے اپنے پر آشوب دور کی تلخ حقیقتوں کو گوارا کرنے کے لئے قلندرانہ انداز اپنالیا۔ ان کی نظمیں”من موجی“ ”پنجری کا عالم“ ”کوڑی نہ رکھ کفن کو“ اور ”ہر حال میں خوش“ اس رنگ کی نمائندہ نظمیں ہیں۔مندرجہ بالا نظموں کے اشعار ذیل میں درج ہیں
ہر آن ہنسی‘ ہر آن خوشی ہر وقت امری ہے بابا
جب عاشق‘ مست فقیر ہوئے پھر کیا دل گیری ہے بابا (من موجی)

دل کی خوشی کی خاطر چکھ ڈال مال دھن کو
گر مرد ہے تو عاشق کوڑی نہ رکھ کفن کو (کوڑی نہ رکھ کفن کو)

افلاس میں ادبار میں اقبال میں خوش ہیں
پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں (ہر حال میں خوش)


حرفِ آخر

نظیر اکبر آبادی اردو کے ایک منفرد و عظیم شاعر ہیں وہ آزرِ سخن ہیں۔ ڈاکٹر اعجاز حسین نے ان کے باری میں کہا ہے کہ:
دہلی اور لکھنﺅ کے مرکزوں سے دور رہ کر انہوں نے اپنی ایک علیحدہ شاہراہ تیار کی جس پر خود چلے اور دوسرا کوئی اور ادھر


قدم نہ بڑھا سکا۔
                                    ---------------------
                                    
Shairi Ki khasoosiyat - شاعر کی خصوصیات
                                                                          مرزا اسد اللہ خان غالب
                                              
                                                ایک تعارف   

غالب غالباً اردو کے سب سے پہلے بڑے شاعر ہیں۔ میر جیسے عظیم فن کار سے لے کر غالب کے دور تک جتنے شعراءبھی گزرے ہیں۔ ان کی مہارت اور استادی کسی ایک فن کی مرہونِ منت ہے۔ میر غزلوں کے خدائے سخن ہیں۔ سودا قصائد اور ہجونگاری کے مردِ میدان ہیں۔ میر حسن مثنوی میں امتیازی حیثیت کے مالک ہےں لیکن غالب کا فن حدو د و رسوم سے بلند اور شاعری کے اعلی ترین معیار کا ترجمان ہے۔ وہ ایک ایسی شاعری کے نمائندے ہےں جہاں سے پیغمبری کی حدیں شروع ہوجاتی ہیں۔
بقول شیخ محمد اکرام:
تاج محل سنگِ مرمر کی تراش خراش کا بہترین امتزاج ہے اسکی نقش نگاری کو ہیرے جواہرات کی جڑاﺅ کاری نے بہترین مرقع بنادیاہے۔ اسی طرح غالب کی شاعری اور ان کا کلام ہے۔ جسطرح مغلوں کا نام روشن رکھنے کے لئے ایک تاج محل کا نام کافی ہے اس طرح اردو غزل گوئی کو حیاتِ جاوداں بخسنے کے لئے غالب کا دیوان کافی ہے۔
خود غالب کا یہ دعوی ہے
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں غالب کا ہے اندازِ بیان اور
غالب کا یہ دعوی صرف دعوی ہی نہیں حقیقت ہے۔ جسے ہر دور کے دانشوروں نے تسلیم کیا ہے ۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی فرماتے ہیں:
عہدِ مغلیہ نے ہندوستان کو تین چیزیں عطا کیں تاج محل‘ اردو زبان اور مرزا اسدا للہ خان غالب۔


غالب کے محاسنِ کلام

غالب کے محاسنِ کلام ذیل مین درج میں درج ہیں۔


(۱) فلسفیانہ لہجہ

غالب فلسفی شاعر تھے۔ تخیل پروازی اور فلسفیانہ انداذِ بیان انکے کلام پر حاوی ہے اور اس میں ان کا کوئی معاصر انکے مدِ مقابل نظر نہیں آتا۔ مثال کے طور پر
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا

نقشِ فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا


(۲) تصوف کا رنگ

غالب کی غزل میں ہمیں تصوف کے حقائق بھی جابجا ملتے ہیں۔ جب وہ اس کائنات کو صوفی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو معرفت کے نہایت پاکیزہ اور باریک نکتے بیان کرتے ہیں۔ بقول آل احمد سرور:
ان کا سارا فلسفہ اور تصوف انکے فکرِ روشن کی کرشمہ سازی کا نام ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
عکسِ کلام درج ذیل ہے
یہ مسائلِ تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

محرم نہیں ہے تو ہی نوہائے راز کا
ہاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا


(۳) عاشقانہ رنگ

غالب کی رائے میں جذبہ عشق ہی ہنگامہ عالم کی بنیاد ہے۔ زندگی کی تمام رونقیں اور لذتیں جذبہ عشق کی بدولت قائم و دائم ہیں۔ مثال کے طور پر نمونہ کلام ذیل میں درج ہے
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا
درد کی دوا پائی درد لا دوا پایا

ان کے دیکھے سو چہرے پہ آجاتی ہے رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے


(۴) رشک و حسد

رشک غالب کا محبوب مضمون ہے۔ وہ رقیب کے علاوہ اپنی ذات سے بھی رشک کرتے ہیں۔ بلکہ بعض انہیں خدا سے بھی رشک ہوجاتا ہے۔ مثلاً
ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
مرتے ہیں کہ ان کی تمنا نہیں کرتے

چھوڑا نہ رشک نے کہ تیرے گھر کا نام لوں
ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاﺅں کدھر کو میں


(۵) غم پسندی

غالب کے نظریہ زندگی کہ مطابق زندگی کے ہنگاموں میں احساسِ غم کا بہت بڑا حصہ ہے۔ زندگی کی یہ گہماگہمی نغمہِ الم اور غم کی وجہ سے قائم ہے۔ نمونہ کلام درج ذیل ہے
قیدِ حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

غمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگِ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے


(۶) حقیقت پسندی

غالب کی نظر انسانی فطرت کی گہرائیوں تک پہنچتی ہے۔ انہیں انسانی نفسیات کا گہرا شعور حاصل ہے اور انہیں نے اپنے اس شعور سے نہایت مفید نتائج اخذ کےے ہیں۔ مثلاً
ہوچکیں غالب بلائیں سب تمام
اک مرگ ناگہانی اور ہے

رنج سی خوگر ہو انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہوگئیں

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی


(۷) ایجاز واختصار

طویل مضامین کو مختصر الفاظ میں بیان کرنے کا جو سلیقہ غالب کے حصے میں آیا وہ بہت ہی کم شاعروں کو نصیب ہوا یعنی دریا کو کوزے میں بند کرنا۔ کلام کی اسی خصوصیت کو بلاغت کا جاتا ہے۔ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی پنہاں کرنا ان کی شاعری کا کمال ہے۔ مثلاً
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی

ملنا اگر نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں


(۸) روز مرہ زبان اور محاورات کا استعمال

غالب نے اپنے شاعر ی میں روزمرہ زبان اور محاورات کا بھی استعمال کیا ہے جس سے ان کے اشعار میں نکھار آگیا ہے۔ مثال کے طور پر نمونہ کلام درج ذیل ہے
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم‘ تم کو خبر ہونے تک

آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک


(۹) عظمتِ انسانی

غالب جب اپنے ماحول میں انسان کوذلت کی بستیوں میں گراہوا دیکھتا ہے تو پکار اٹھتا ہے۔مثلاً
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں

بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا


(۰۱) رندی

ہمیں غالب کی غزل میں رندانہ مضامین کی چاشنی بھی ملتی ہے
کعبہ کس منہ سے جاﺅ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

پلادے اوک سے ساقی جو مجھ سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے


(۱۱) سہلِ ممتنع

غالب کا کلام سہلِ ممتنع کی ایک بلند و بالا خصوصیت کا حامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بات کو اس قدر آسان انداز اور پیرائے میں بیان کیا جائے کہ سننے والا یہ سمجھے کہ وہ بھی اس طرح بات کرسکتا ہے۔ مگر جب کرنے بیٹھے تو عاجز ہوجائے۔ ان کے کلام میں سادگی اور پرکاری کی کیفیت انتہائی کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ بقول غالب
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

دلِ نادان تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے


(۲۱) شوخی و ظرافت

غالب شعر میں اظہار غم کے موقع پر جب شوخی یا طنز سے کام لیتے ہیں تو غم میں بھی شگفتگی اور زندہ دلی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔نمونہ کلام ذیل میں درج ہے
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

کیا فرض ہے سب کو ملے ایک سا جواب
آﺅ نہ ہم سیر کریں کوہِ طور کی


حرفِ آخر

حقیقت یہ ہے کہ غالب کی شاعری بڑی پہلو دار شاعری ہے۔ ان کی شخصیت اور شاعری پر مختصر سے وقت میں تبصرہ کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ اس لئے صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ غالب ہر دور میں غالب رہے گا۔غالب کی کلام کی مندرجہ بالا خصوصیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا کلام ایک وسیع دنیا ہے۔ اہلِ دانش نے سچ کہا ہے کہ غالب اردو کی آبرو اور عروسِ غزل کا سہاگ ہیں۔
پروفیسر عزیز احمد کے یہ الفاظ غالب کی عظمت کو بیان کرنے کیلئے حروفِ آخر کا درجہ رکھتے ہیں:


وہ ایک طرح کے شاعرِ آخرالزماں ہیں جن پر ہزار ہا سال کی اردو اور فارسی شاعری کا خاتمہ ہوا۔  
                                     ----------------------------
                                 
                                                          
Shairi Ki khasoosiyat - شاعر کی خصوصیات
                                          حسرت موہانی
                                             ایک تعارف 

ہے زبان لکھنﺅ میں رنگ دہلی کی نمود
تجھ سے حسرت نام روشن شاعری کا ہوگیا
رئیس المتغزلین‘ مولانا حسرت موہانی کا نام ایسے باکمال شعراءمیں سرِ فہرست آتا ہے جو غزل دشمن تحریک کے مقابل صف آراءہوتے اور انہوں نے اس صنف شاعری کو از سرِ نو مقبول بنانے کے لئے اپنی فکری توانائیاں مخصوص کردیں۔ جب انہوں نے ایک نئے انداز سے غزل کہی جس میں فرسودہ مضامین کو نئی آواز اور توانائی کے ساتھ پیش کیا تو لوگ پھر غزل کی طرف متوجہ ہوگئے اس طرح حسرت غزل کو دوبارہ زندگی عطا کی اور” رئیس المتغزلین“ کہلائے۔ان کی شاعری میں دہلوی اور لکھنﺅی شاعری کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ انہوں نے میر‘ مصحفی‘ جرات‘ غالب‘ مومن اور نسیم کے رنگ کو پسند کیا جس کی وجہ سے تمام رنگ ان کی شاعری میں قوسِ قزح کی طرح جمع ہوگئے۔ بلاشبہ وہ دور جدید کے کامیاب
ترین غزل گو شاعر ہیں۔
مجنوں گورکھپوری کہتے ہیں:
حسرت نے غزل کی نرم و نازک فطرت کو خوب سمجھا ہے۔


حسرت کے محاسنِ کلام

حسرت کے محاسنِ کلام ذیل مین درج ہیں۔


(۱) عاشقانہ رنگ

حسرت کی شاعری میں ان کا عاشقانہ رنگ سب سے گہرا ہے اور ان کی پروازِ تخیل ان کو اس میدان کا شہسوار بناتی ہے‘ جو خصائل ان کی عاشقی کے ہیں وہی ان کی شاعری کے بھی ہیں۔ وہ جذبات کے شاعر ہیں اور انہیں جذبات کو اپنی شاعری میں سموتے ہیں۔
آپ بیٹھیں تو سہی آکے مرے پاس کبھی
کہ میں فرصت میں حدیث دل دیوانہ کہوں

حسن بے پروا کو خودبیں و خود آرا کردیا
کیا کیا میں نے اظہارِ تمنا کردیا

جذب شوق کدھر کو لئے جاتا ہے مجھے
پردہ راز سے کیا تم نے پکارا ہے مجھے


(۲) جدتِ خیال

حسرت کی غزل خالص زمینی ہے۔ اس لئے ہر دم تازہ اور جواں ہے۔حسرت کے یہاں محبوب کی رسوائی کی باتیں ہیں نہ اس کے دام کی‘ نہ چیرہ دستی کی ‘ آنسو پینے کی نہ ہی خار مغلیلاں ہیں بلکہ وہ انئے دبستان کے بانی ہیں۔
بقول رشید احمد صدیقی:
اردو کا کوئی شاعر ایسا نظر نہیں آتا جس کا محبوب اور جس کی عشق ورزی اتنی جانی پہچانی اتنی شائستہ اور اتنی نارمل ہو جتنی حسرت کی۔
بقول حسرت
توڑ کر عہد کرم ناآشنا ہوجائیں
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہوجائیں

خرد کا نام جنوں پڑگیا جنوں کا خِرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

ہے انتہائے یاس بھی اک ابتدائے شوق
پھر آگئے وہیں پہ چلے تھے جہاں سے ہم


(۳) احترام حسن و عشق

حسرت نے عشق و محبت کے نازک اور لطیف جذبات اور ان کے اتار چٹھاﺅ کی بھر پور انداز میں تصویر کشی کی لیکن ان کا اظہار باوقار پیرائے میں کیا ہے۔ پروفیسر امجد علی شاکر کہتے ہیں:
حسرت محبوب کا خاصا احترام کرتے ہیں وہ اسے داغ کی طرح ذلیل کرنے پر تلے ہوئے نہیں۔
عکسِ کلام درج ذیل ہے
دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا
شیوہ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا

ترے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرت
اب آگے تری خوشی ہے جو سرفراز کرے

عاشق حسن جفاکار کا شکوہ ہے گناہ
تم خبردار خبردار نہ ایسا کرنا


(۴) ہمہ گیر رنگ

حسرت کی شاعری میں جہاں جدت خیال ہے وہاں شعرائے متقدمین و متاخرین کا رنگ بھی تمام خصوصیات مل کر ایک نیا رنگِ تغزل پیدا کردیتی ہے جو دورِ حاضر کا معیار ہے۔مثال کے طور پر
غالب و معحفی و میر و نسیم و مومن
طبع حسرت نے اٹھایا ہے ہر استاد سے فیض

طرز مومن میں مرحبا حسرت
تیری رنگین نگاریاں نہ گئیں

شیرینی نسیم ہے‘ سوزوگداز میر
حسرت تیرے سخن پہ ہے لطف سخن تمام


(۵) عارفانہ رنگ

حسرت کی زندگی درویشانہ بلکہ قلندرانہ قسم کی تھی وہ صوفی ہونے کے باوجود زمینی عاشق بھی ہےں۔ حسرت کی شاعری میں گوکہ یہ رنگ اتنا گہرا نہیں مگر ہے ضرور۔
ہم کیا کرےں نہ تیری اگر آرزو کریں
دنیا میں اور کوئی بھی تیرے سوا ہے کیا


(۶) ندرتِ ادا

حسرت کی ایک خوبی یہ بھی ہے کاہ پرانے اور فرسودہ مضامین کو نئے اسلوب اور نرالے انداز میں پیش کرتے ہیں کہ شعر کا لطف دوبال ہوجاتا ہے۔
ہوکے نادم وہ بیٹھے ہیں خاموش
صلح میں شان ہے لڑائی کی

(۷) سادگی
حسرت کی شاعری سادگی و سلاست سے پر ہے ۔ ان کے یہاں نہ ہی خیالات کی پیچیدگی ہے اور نہ ہی صنائع و بدائع بلکہ ایک توازن و اعتدال کی کیفیت ملتی ہے۔
دل ہے نادان کے تیری صورتِ زیبا دیکھی
انکھ حیران کہ اک حسن کی دنیا دیکھی


(۷) عوامی رنگ

مولانا حسرت کی غزلیات میں فکری بلندی‘ گہرائی و اعلی شعور‘ اخلاقی اقدار‘ عام مشاہدات اور تجربے بڑے واضح اور شائستہ انداز مین پائے جاتے ہیں۔ انکے غزل کے مضامین وہ ہیں جو ہر شخص کو اپنی زندگی میں پیش آسکتے ہیں۔ مثلاً
بھلاتا لاکھ ہوں لیکن وہ برابر یاد آتے ہیں
اسی ترکِ الفت پروہ کیوں کر یاد آتے ہیں


(۸) جذبات نگاری

جذبات نگاری کی مصوری میں حسرت کو ملکہ حاصل ہے۔ ان کی بعض غزلیں لکھنو کی شاعری سے قریب تر ہیں۔ لیکن ان میں وہ بے باکی اور نیرنگی نہیں ہے جس سے اگثر شعرائے لکھنﺅ کے دیوان بھرے پڑے ہیں۔
آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہارِ حسن
آیا میرا خیال تو شرما کہ رہ گئے


(۹) رجائیت

حسرت کے یہاں ہمیں گریہ وزاری اور ماتم گساری نہیں ملتی۔ غم کے تیر سے وہ بھی گھائل ہوتے ہیں۔ یہ غم عشق ہے جو اپنے اندر نشاط کے سارے انداز چھپائے ہوئے ہے۔
قوتِ عشق بھی کیا شے ہے کہ ہو کر مایوس
جب کبھی گرنے لگا ہوں تو سنبھالا ہے مجھے

دلوں کو فکر دو عالم سے کردیا آزاد
ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے


(۰۱) معاملہ بندی

حسرت کے یہاں معاملہ بندی عشق و محبت کی حرف و حکایت کی صورت میں نظر آتی ہے ہوسنا کی شکل میں نہیں۔ بقول ڈاکٹر یوسف حسین:
حسرت کی غزل سرائی عشق و محبت کی قلبی وارداتوں اور اس کی جاودانی کیفیتوں کی داستان ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اس داستان کے ہیرو ہیں۔
مثلاً
کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونہ دفعتاً
اور دوپٹہ سے ترا منہ کو چھپانا یاد ہے

مائل بہ شوق مجھے پاکے وہ بولے ہنس کر
دیکھو تم نے جو چھوئے آج ہمارے گیسو


معروف تنقید نگاروں کی آرائ

ڈاکٹر سیدعبداللہ کہتے ہیں:
حسرت محبت کے خشگوار ماحول کے بہترین اور مقبول ترین مصور اور ترجمان تھے۔ وہ خالص غزل کے شاعر تھے۔
آل احمد سرور لکھتے ہیں:
اردو غزل کی نئی نسل کی ابتداءحسرت ہی سے ہوئی ہے۔ حسرت اردو غزل کی تاریخ مین جدید و قدیم کے درمیان ایک عبودی حیثیت

رکھتے ہیں۔
                                   --------------------------------
                                   
Shairi Ki khasoosiyat - شاعر کی خصوصیات
                         مولانا الطاف حسین حالی
                                               ایک تعارف
                                            


افسانہ تیرا رنگین‘ روداد تیری دلکش
شعر و سخن کو تونے جادو بنا کے چھوڑا
مولانا الطاف حسین حالی کو اردو ادب میں بے حد اہمیت حاصل ہے۔ اس کے پہلی وجہ آپ اردو نثر میں اور اردو نظم دونوں مےں یکساں مقبولیت اور دوسری خاص وجہ یہ ہے کہ حالی دورِ جدید اور دور متوسطین کے درمیان ایک مضبوط کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غالب‘ شیفتہ اور مومن جیسے بلند پایا شاعروں سے جتنی بھی قربت آپ کو حاصل تھی اس نے آپ کی فنکارانہ صلاحیتوں کو بہت زیادہ جلا بخشی۔ حالی نے دورِ جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے میں دورِ قدیم کی خوبیوں کو نظر انداز نہیں کیا۔
مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:
انیسویں صدی مین کسی شخص نے ہماری زبان و ادب پر ایسے گراں قدر احسانات نہیں کیے جتنے حالی نے کےے۔ وہ ہماری شاعری کے امام اور مجتہد ہیں۔


حالی کے محاسنِ کلام

مولانا الطاف حسین حالی کے محاسنِ کلام ذیل میں درج ہیں۔


(۱) اسلوبِ نگارش

محترمہ صالحہ عابد حسین نے یادگارِ حالی میں حالی کے اسلوب کی بڑی جامع تعریف کی وہ فرماتی ہیں:
انہوں نے میر سے دردِ دل لیا‘ درد سے تصوف کی چاشنی لی‘ غالب سے حسنِ خیال‘ ندرتِ گکر اور شوخی گفتار سیکھی‘ سعدی سے بیان کی سادگی و معنی آفرینی‘ شیفتہ سے سیدھی سادھی باتوں کو دلفریب بنانے کا حسن۔ وہ جذبات و احساسات کو اس ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں کہ ان مین دل کی سچی لگن اور اس کی یہ دھڑکن صاف سنائی دیتی ہے۔
مثال کے طور پر
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جاکر نظر کہاں


(۲) سادگی و پرکاری

حالی کے کلام کی نمایاں خوبی سادگی و سلاست تھی۔ انہوں نے اپنی نظموں اور غزلوں دونوں مین عام فہم زبان‘ آسان اور سبک الفاظ استعمال کئے ہیں۔ وہ تکلف اور تصنع سے بچتے ہیں اور نہایت فطری انداز مے ناپنے جذبات ادا کرتے ہیں۔ الفاظ سادہ ضرور ہوتے ہیں مگر ساتھ ساتھ نہایت موثر اور دلنشین ہوتے ہیں۔سادگی کی تعریف کرتے ہوئے الطاف حسین حالی مقدمہ شعر و شاعری میں لکھتے ہیں:
سادگی سے صرف لفظوں کی سادگی مراد نہیں بلکہ خیالات ایسے نازک اور دقیق نہ ہوں جن کو سمجھنے کی عام ذہنوں میں گنجائش نہ ہو۔
مثلاً
رنج اور رنج بھی تنہائی کا
وقت پہنچا میری رسوائی کا

سخت مشکل ہے شیوہ تسلیم
ہجر بھی آخر کو جی چرانے لگے


(۳) صداقت و خلوص

صداقت کا جوہرحالی کی زندگی‘ شاعری اور نثر میں ہر جگہ جھلکتا نظر آتا ہے۔ وہ جذبہ و خیال کو حقیقت و صداقت کی زبان مین ادا کرتے ہیں۔ حالی شاعری میں جھوٹ اور مبالغے کے خلاف ہیں۔ اور اصلیت کو اس کی بنیادی صفت قرار دیتے ہیں۔ معاملات عشق و محبت ہوں یا قومی و ملی افکار و خیالات‘ حالی صداقت کا دامن تھامے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں تاثیر پیدا ہوگئی ہے۔
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیان رہے

ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی
جی چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں


(۴) غزل کو توسیعی تصور

حالی نے غزل کے قدیم سانچوں کو توڑ کر اس کی ترقی کیلئے نئی راہوں کی نشاندہی کردی ہے۔ غزل کی محدود دنیا اور آداب غزل کا لگا بندھا تصور جو مانگے تانگے کے قدیم احساسات اور خیالات کے لئے وضع ہواتھا حالی کیلئے قابلِ قبول نہ تھا۔ ان کا لہجہ اس مہدود شاعرانہ زبان سے گریزاں تھا۔ اس لئے انہوں نے غزل کی سابق حد بندی توڑ کر اجتماعی موضوعات اور قومی اور سماجی خیالات کو غزل مین داخل کیا۔ انہوں نے عام بول چال اور زندگی سے اخذ کردہ حقیقی اور ذاتی تجربات کو اپنی شاعری میں اس طرح ڈھالا کہ شعر کا حسن بگڑنے نہ پایا۔
اب بھاگتے ہیں سایہ زلف بتاں سے ہم
کچھ دل سے ہیں ڈرتے ہوئے کچھ آسماں سے ہم


(۵) سوزو گذاز

حالی کی غزل میں سوزوگداز کا عنصر نمایاں طور پر نطر آتا ہے۔ خصوصاً ان کی وہ شاعری دردوغم اور سوزوگداز سے لبریز ہے۔ جو انہوں نے سرسید کی اصلاحی تحریک مےن شمولیت سے پہلے کی تھی۔ حالی کی غزل کے بعض اشعار نشتر کی طرح دل مین اتر جاتے ہیں۔ عشق و محبت کے روایتی موضوعات کو وہ بعض اوقات نہایت بے ساختگی اور پر گداز لہجے میں بیان کرتے ہیں جس کی تپش دل کی گہرائیوں میں سرایت کرجاتی ہے
گر صاحب دل ہوتے‘ سن کر مری بے تابی
تم کو بھی قلق ہوتا اور مجھ سوا ہوتا

اس کے جاتے ہی ہوگئی کیا گھر کی صورت
وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت

عشق کہتے ہیں جسے سب وہ یہی ہے شاید
خودبخود دل میں اک شخص سمایا جاتا


(۶) دھیما لب و لہجہ

غزل میں حالی کا لب و لہجہ شوخ و شنگ نہیں بلکہ نہایت ہلکا اور دھیما ہے۔ وہ گہرے اور پرسوز جذبات بھی بڑے سادہ اور ہلکے انداز مین بیان کرتے ہیں لیکن یہی دھیما انداز نہایت مﺅثر ہوتا ہے۔ چنانچہ حالی کے بعض اشعار دل میں خلش کی سی پیدا کردیتے ہیں اور بے اختیار تڑپ پیدا کردیتے ہیں
ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت

کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زبان میں

یارب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا ان کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں


(۷) درسِ اخلاق

ان کی شاعری میں اصلاحی اور اخلاقی مضامین کی کثرت ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری سے قوم کو پست حالت کو ابھارنے کی کوشش کی۔ نوجوان طبقہ کو تحریک و عمل کی ترغیب دی‘ ان کو تحصیل علم کیلئے آمادہ کیا‘ گداگری کے پیشے کی مذمت کی ‘ نوجوانوں کو بازاری عشق سے مضر اثرات سے آگاہ کیا اور ان کو محنت کی طرف مائل کیا۔ وہ اثر آفرین اور درد انگیز پیرائے میں بڑے پاکیزہ اخلاقی اور اصلاحی پیغام دیتے جیسے
عیب اپنے گھٹاﺅ پر خبردار رہو
گھٹنے سے کہیں نہ ان کے بڑھ جائے نہ غرور

حالی راہ راست جو کہ چلتے ہیں سدا
خطرہ انہیں گرگ کا نہ ڈر شیر کا

آرہی ہے چاہِ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت


(۹) حبِ وطن

حالی کا کلام وطن کی سچی محبت کے نغموں اور قومی درد کے جذبات سے پر ہے۔ قوم کی طرح وطن کی محبت میں بھی ان کی آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں
اے میرے وطن میرے بہشت بریں
کیا ہو تیرے آسمان و زمیں

وقت نازک ہے اپنے بیڑے پر
موج حائل ہے اور ہوا ناساز


معروف تنقید نگاروں کی آراہ

پروفیسرآل احمد سرور لکھتے ہیں:
حالی نے ایسا پرسوز راگ الاپا ہے جس کو سن کر خوبیدہ قوم چونک پڑی۔
بقول ایک نقاد:
حالی کا نام ان کی قومی شاعری کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اگر حالی نہ ہوتے تو اقبال بھی نہ ہوتے۔
ڈاکٹرسید عبداللہ کہتے ہین:
ان کی شاعری قدیم اور جدید کے درمیاں ایک پل کی سی حیثیت رکھتی ہے۔
بقول الطاف حسین حالی
مال ہے نایاب پر گاہک ہے اکثر بے خبر
شہر میں کھولی ہے حالی نے دکان سب سے الگ


حرفِ آخر

غرض یہ کہ حالی کی غزلیں حسن و بیان‘ لطفِ زبان‘ جذبات نگاری‘ سوزو گداز اور سادگی و صفائی کے نہایت اعلی نمونے ہیں اور ان کی نظمیں خالصتاً افادی نقطہ نگاہ کی حامل ہیں۔ انہوں نے شاعری کو ملک و قوم کی اصلاح کا دریعہ بنایا۔ وہ اردو شعر و ادب کے بہت بڑے محسن تھے اور تاریخِ نظم اردو اور شاعری میں ہمیشہ زندہ رہیں گے
حالی نشاط نغمہ ہے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقت صبح رہے رات بھر کہاں

کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے اے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی گل تر کی صورت
اس مضمون کو جناب احتشام حسین کے ان الفاظ پر ختم کیا جاسکتا ہے:
حالی نے اپنے قدیم ادبی سرمائے کو پرکھنے اور اس مےن اچھے کو برے سے الگ کرلینے کے راز بتائے۔ انہوں نے روایتوں کا احترام کرتے ہوئے عقل سے کام لینے کی طرف مائل کی تاکہ بدلتے ہوئے حالات میں اپنی جگہ بنانے میں آسانی ہو۔ انہوں نے ادب کی بنیاد حقیقت اور اصلیت پر رکھنے پر زور دیا تاکہ ادب زندگی سے قریب تر آسکے۔حالی کے عہدے نے شاعری‘ تاریخ‘ مقابلہ نگاری‘

ناول نویسی‘ صحافت وغیرہ کے علاوہ تنقید کو بھی بہت کچھ دیا۔ اتنی کامیابی کسی کے لئے بھی قابلِ فخر ہوسکتی ہے
                                                           ---------------------------------------------

                                                            


                                                                        











2 comments: