Monday 30 January 2012

Mebal Aur Main میبل اور میں

Mebal Aur Main 

میبل اور میں

1st Year Urdu Notes (اردو)

Mebal Aur Main


میبل اور میں

حوالہ

پیشِ نظر عبارت مضمون میبل اور میں سے لیا گیا ہے جس کے مصنف احمد شاہ پطرس بخاری ہیں۔
تعارفِ مصنف

احمد شاہ پطرس بخاری خالص مزاح کے علمبردار قلمکار ہیں۔ آپ نے اس مشکل ترین صنفِ ادب میں خامہ فرسائی کی اور قارئین کی زبردست دادِ تحسین وصول کی۔ آپ کی ذہانت کی عکاس آپ کی وہ تحریریں ہیں جن میں واقفیت‘ حسنِ تعمیر‘ علمی ظرافت‘ زیرِلب تبسم‘ شوخی‘ طنز اور مزاح کا بھرپور عکس نظر آتا ہے۔ آپ کو اپنے ہم عصر مزاح نگاروں کے درمیان ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ حکیم یوسف حسن پطرس کے بارے میں کہتے ہیں:
اگرمیں یہ کہہ دوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ہندوپاکستان کے تمام مزاحیہ کتابوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالا جائے اور پطرس کے مضامین کو دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو پطرس کے مضامین بھاری رہیں گے۔
تعارفِ سبق

احمد شاہ پطرس بخاری نے اس مضمون ُمیبل اور میں میں جس نکتہ نظر کو لفظوں کے احاطے میں مقید کیا ہے وہ دراصل مغرب کی پیداوار ہے۔جس کے مطابق زندگی کے ہر شعبے میں مردوعورت مساوی حقوق کے حامل ہیں۔ پطرس بخاری نے اسی نکتہ نظر کی سخت مذمت کی ہے اور طنزاََ اس زندہ حقیقت کو واضح کیا ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں تو نہیں البتہ ایک دوسرے کو فریب دینے میں دونوں برابر ہیں۔


اقتباس ۱

لیکن اس تمام یکجہتی اور ہم آہنگی میں ایک خلش ضرور تھی۔ ہم دونوں نے بیسویں صدی میں پرورش ضرورپائی تھی۔ عورت اورمرد کی مساوات کے قائل تو ضرورتھے تاہم اپنے خیالات اور بعض اوقات اپنے رویے میںکبھی نہ کبھی اس کی تکذیب ضرور کردیتے تھے۔
تشریح

پیشِ نظر عبارت میں مصنف عورت و مرد کے مساوات کے مغربی نظریہ کو طنز کا نشانہ بنارہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مغرب نے جو نظریہ پیش کیا ہے وہ بظاہر تو قابلِ قبول ہے اور اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ خیال اور منطق انسانی فطرت کے خلاف ہیں اور انسان نہ چاہتے ہوئے بھی دنیا کے فلسفہ دانوں کے ان عقائد کی خلاف ورزی کرجاتا ہے۔ اللہ تعالی نے مرد اور عورت دو مختلف صنفیں بنائی ہیں اور ان کے دائرہ کار بالکل مختلف ہیں۔ اس کو اگر کسی بھی طرح ملا دیا جائے تو یہ انسانوں ہی کے لئے نقصان دہ ہے۔اور انسان اس ماحول میں اجنبیت کے احساس میں مبتلا رہتا ہے۔ حالات و واقعات اسے بار بار یہ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ یہ ہم آہنگی اور مرد و عورت کا میل جول قطعاً انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ مصنف اس کہانی میں اپنی مثال دیتے ہوئے اس نظریہ کی تردید کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ اور ان کی ایک دوست جو تعلیمی سرگرمیوں میں ساتھ ساتھ ہوتے تھے اور اکثر نشستوں میں ایک ساتھ ہی بیٹھتے تھے یہاں تک کہ ان کے خیالات بھی کافی ہم آہنگ تھے۔ اس کے باوجود ان کا رویہ‘ ان کے خیالات اور ان کے عملی مشاغل سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ فطری لحاظ سے اس صدی کا یہ نظریہ غلط ہے۔ اکثر اوقات ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں جن سے مرد کی برتری اور عورت کی ناتوانی ثابت ہوجاتی ہے


اقتباس ۲

کبھی کبھی میرے جسم کے اندر میرے ایشیائی آباﺅاجداد کا خون جوش مارتا‘ اور دل جدید تہذیب سے باغی ہوکر مجھ سے کہتا کہ مرد اشرف المخلوقات ہے۔ اس طرح میبل عورت و مرد کی مساوات کا اظہار مبالغے کے ساتھ کرتی تھی‘ یہاں تک کہ بعض اوقات ایسا معلوم ہوتا کہ وہ عورتوں کو کائنات کی رہبر اور مردوں کو حشرات الارض سمجھتی ہے۔
تشریح

پیشِ نظر عبارت میں مصنف مرد و عورت کے درمیان پائی جانے والی اس کشمکش کا ذکر کر رہا ہے جس کے تحت ایک طبقہ دوسرے طبقے کو حقیر اور خود کو افضل سمجھتا ہے اور اپنے قول و فعل سے اسے ثابت کرنے کی سعی کرتا رہتا ہے۔ مصنف اس کہانی میں جس کردار کی ترجمانی کر رہے ہیں وہ بھی برتری کی اسی بھاگ دوڑ میں مگن نظر آتا ہے۔ یہ کردار جو خود اس مخلوط نظام میں پرورش پارہا ہے کہتا ہے کہ اکثر و بیشتر مجھے ایسے حالات کا سامنا ہوتا ہے کہ مخالف طبقہ مجھے احساسِ کمتری میں مبتلا کردیتا ہے۔ جس کی وجہ سے میرے اندر جلن کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔میں جو عام حالات میں کسی طور پر اس نظریہ کا قائل و حامی ہوں واپس اپنے مشرقی بزرگوں کے خیالات کی طرف لوٹ آتا ہوں اور اپنے دل کویہ کہہ کر تسلی دیتا ہوں کہ مرد ہی عورت سے افضل ہے اور مرد ہی کو برتری حاصل ہے۔ میں مردوں کے معاشرے‘ عورت کی آدھی گواہی اور بائیں پسلی کی پیدائش کو دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہوئے عورت و مرد کی مساوات کا بالکل مخالف ہوجاتا ہوں اور مجھے اپنے آباﺅجداد کے نظریے بالکل صحیح معلوم ہوتے ہیں۔ مصنف کہتا ہے کہ اس کے برعکس جب دوسرا طبقہ جب یہی بات سامنے لاتا ہے تو تمام باتوں کا مفہوم ہی پلٹ جاتا ہے اور یہی دلائل میرے خلاف بہت مﺅثر ثابت ہوتے ہیں۔ یہ بات مجھ پر بہت خوبصورتی سے واضح ہوجاتی ہے کہ مرد و عورت کسی بھی اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔ عورت بھی اسی اہمیت کی مالک ہے جتنی کہ مرد۔ بعض اوقات تو میں یہ بھی سن لیتا کہ صنفِ نازک کا یہ طبقہ اس قدر افضل ہے کی حکمرانی کا منصب اسی کے لئے ہے اور مردوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ مصنف نے دونوں طبقات کی اس جستجو کا ذکر کیا ہے جو ایک دوسرے کو کمتر ثابت کرنے کے لئے ہمیشہ جاری رہتی ہے+


اقتباس ۳

جان یا مال کا ایثار سہل ہے لیکن آن کی خاطر نیک سے نیک انسان بھی ایک نہ ایک دفعہ تو ضرور ناجائز ذرائع کے استعمال پر اتر آتا ہے۔ اسے میری اخلاقی پستی سمجھئے لیکن یہی حالت میری بھی ہوگئی۔
تشریح

اس کہانی میں مصنف نے جس کردار کی ترجمانی کی ہے وہ مغربی معاشرے میں پرورش پارہا ہے اور مخلوط تعلیمی نظام کے تجربے سے گزرہا ہے۔ وہ اس وقت نہایت مشکل سے دوچار ہے۔ واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ اس کی مخالف صنف کی ایک دوست جو اس کے ساتھ کالج میں پڑھتی ہے کچھ اس طرح کے واقعات رونما کر دیتی ہے عورت کی برتری اور مرد کی کمتری ثابت ہو۔ مشکل اور معروف کتابیں وہ اس کے حوالے یہ کہہ کر چلی جاتی ہے کہ وہ ان کا مطالعہ کر چکی ہے اور تم بھی پڑھ لو تاکہ تبصرہ کرنے میں لطف آئے۔ یہ کردار اس ناممکن عمل کو سرانجام نہیں پاتا اور آخرکار تبصرے کا وقت آجاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ٹھیک ہے کسی کو دھوکہ دینا‘ اس کے ساتھ فریب کرنا اور جھوٹ بولنا غلط بات ہے لیکن بات جب عزت و آن کی ہو تو شریف سے شریف اور نیک سے نیک انسان بھی غلط قدم اس لئے اٹھا لیتا ہے تاکہ اس کی عزت محفوظ رہے۔ اس تمام واقعے کے بعد میری حالت بھی کچھ اسی طرح کی ہے۔ میں نے بھی سوچ لیا ہے کہ میں مردوں کی عزت کی خاطر اب مجبوراً دوسرا راستہ اختیار کروں گا تاکہ کچھ لاج رہ جائے۔ مصنف اپنے اس عمل کو خود بھی غلط قدم کہہ رہے ہیں لیکن عزتِ نفس کی خاطر وہ سب کچھ کرنا جائز سمجھتے ہیں۔
اس واقعے کی روشنی میں مصنف دراصل ایسے نظام کو طنز کا نشانہ بنارہے ہیں جس کی بدولت ان واقعات نے جنم لیا۔ وہ حقیقتاً اس بات کو اٹھارہے ہیں کہ مردو عورت کے مساوی حقوق کا اگر اس طرح نفاذ ہوگا تو اس طرح کے غلط اٹھانے پر انسان خود ہی مجبور ہوگا


                                                               -------------------------------------

 

Tashkeel-e-Pakistan تشکیلِ پاکستان

 Tashkeel-e-Pakistan 

تشکیلِ پاکستان

1st Year Urdu Notes (اردو)

Tashkeel-e-Pakistan



تشکیلِ پاکستان

تعارفِ مصنف

میاں بشیر احمد سچے مسلمان اور اسلام کے شیدائی تھے۔ ساری عمر اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی فلاح کی خاطر قلمی‘ علمی اور عملی جہاد میں مصروف رہے۔ نظریہ پاکستان سے انھیں والہانہ لگاﺅ تھا ان کی تحریریں اسلامی اقرار و تعلیمات کی اشاعت اور نظریہ پاکستان کی وکالت کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کی تحریرین سادہ زبان اور بیان کی روانی کے ساتھ ساتھ زورِ اثر کی حامل ہیں۔ خلوص و دیانت‘ بے باکی اور دو ٹوک بات کہنا انکی عادت ہے۔ ڈاکٹر ابو اویس فرماتے ہیں:
سرسید نے جو طرز ایجاد کیا خود ان کی ہی ذات تک محدود نہ رہا بلکہ ان کے رفقاءبھی اس سے متاثر ہوئے اور پھر یہی سلسلہ آگے بڑھا تو میاں بشیر احمد جیسے مفکریں نے اسے برقرار رکھا اور ترقی دی۔


اقتباس ۱

اس ناگفتہ بہ حالت میں ایک دور اندیش ہمدردِ ملت اٹھا جس نے اپنی مایوس‘ پسماندہ قوم کو امید‘ محنت اور ترقی کا زندگی بخش پیغام دیا۔ یہ مردِ خدا سرسید احمد خان تھے۔ یہ انھیں کی جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ گو ملک ہاتھوں سے گیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں۔
ربطِ ما قبل

ان سطور سے قبل میاں بشیر احمد نے اپنے مضمون میں بطور تمہید بتایا کہ اورنگ زیب کی وفات کے ڈیڑھ سو سال بعد انیسویں صدی کے شروع میں مسلمانوں کے سیاسی زوال کی تکمیل ہو گئی تھی۔ ۳۰۸۱ میں دہلی میں انگریز کے داخلے اور مسلمانوں کی غلامی نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ ۷۵۸۱ میں مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی لیکن مسلمانوں کوذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ غدرِ دہلی کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے ہندﺅں کے ساتھ مل کر ان کا سماجی‘ سیاسی اور معاشی لحاظ سے استحصال کیا جس کے نتیجے میں مسلمان سمجھ گئے کہ اب ان کا مستقبل تاریک ہے ان میں پژمردگی اور احساس محرومی پیدا ہوگئی۔
تشریح

پیشِ نظر سطور میں مصنف کہتے ہیں کہ ۷۵۸۱ کی پہلی جنگِ آزادی کے بعد مسلمانِ ہند انگریزی دباﺅ اور ہندﺅں کی بے رخی کا شکار ہوئے اور ان میں یاسیت اور محرومی کا احساس بڑھنے لگا۔ مسلمانوں کی خستہ حالی‘ مردہ دلی اور احساس محرومی کے نتائج پر مسلمانوں کے رہنماﺅں اور اہلِ دانش نے بھی اپنی بے چینی کا اظہار کیا۔ انکی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس گرداب سے کیسے نکلا جائے۔
چنانچہ اسی دل برداشتہ ماحول میں مسلمانوں کو غلامی سے چھٹکارا دلانے‘ ان میں سے ناامیدی کا احساس ختم کرنے کے لئے اور کامیابی و آزادی کی راہیں سمجھانے کی خاطر ایک شخص جس کا نام سرسید احمد خان تھا‘ اٹھا جو ہمدردی کے احساس سے معمور دل اورترقی و قومی خدمت کے جذبے سے لبریز ذہن کا حامل تھا۔ خدا نے اسے سوجھ بوجھ‘ تدبیرو تفکر‘ دور بینی اور دوراندیشی کی دولت سے مالامال کیا تھا۔ یہ عظیم ہمت و استقامت اسکی فطرت میں شامل تھی اس نے اپنی دور اندیشی سے مسلمانوں کی ٹوٹی ہوئی کشتی کو جوڑنے اور گرداب میں پھنسی ہوئی نیا کو کنارے لگانے کی منصوبہ بندی کی اور انھیں ناامیدی اور سستی و کاہلی کی بجائے محنت و مشقت کی طرف مائل کرنے کی بھرپور کوشش کی جو بلآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور مسلمانانِ ہند خوابِ گراں سے جاگ گئے۔
غرضیکہ مسلمان کحھ عرصے دوسروں کی غلامی میں تو رہے لیکن اس سے انھیں غلامی اور آزادی کا فرق پتہ چل گیا۔ انھوں نے محسوس کرلیا کہ غلامی سے بہتر موت ہے بالآخر وہ بیدار ہوگئے اور سرسید کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر آزادی کی منزل کی جانب گامزن ہوگئے


اقتباس ۲

ان مساعی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب سے بےگانگی بہت حد تک کم ہوگئی اور مغرب کی ذہنی غلامی سے نجات ملی۔ لیکن ساتھ ہی ایک ایسی فضا بھی پیدا ہوگئی جس میں اپنی ہر چیز اچھی اور دوسروں کی ہر چیز بری لگنے لگی۔ اس کی اصلاح ضروری ہوگئی۔
ربطِ ما قبل

ان سطور سے قبل میاں بشیر نے ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی زوال کا نقشہ کھینچتے ہوئے ان کی غلامی‘ انگریزوں کی حکمرانی اور ہندﺅں کی ریشہ دوانیوں کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات بیان کیے ہیں۔ مسلمان قوم کو پستی‘ ذلت اور رسوائی کے اندھیروں سے نکالنے میں سرسید اور انکے رفقاءکی خدمات کا ذکر کیا ہے۔ ساتھ ہی نیشنل کانگریس کی بنیاد مسلمانوں کے خلاف اسکی منصوبہ بندی‘ سرسید کا کانگریس اور ہندﺅں کے رویے سے اختلاف کے علاوہ ان اداروں اورتحریکات (مثلاً علی گڑھ‘ دیوبند‘ ندوہ وغیرہ) کا ذکر کیا ہے۔ جنھوں نے مسلمانوں کو سیاسی‘ معاشی‘ مذہبی اور مواشرتی طور پر بیدار کیا۔
تشریح

پیشِ نظر سطر میں مصنف لکھتے ہیں کہ سرسید اور ان کے رفقاءعلی کڑھ‘ دیوبند اور ندوہ جیسے افراد اور اداروں کی کوشش کے نتیجے میں مسلمانوں کے دلوں سے مذہب سے دوری کا کافی حد تک خاتمہ ہوگیا اور وہ دین کی اتباع میں اپنی نجات سمجھنے لگے۔
انگریزوں کی غلامی اور سیاسی بالادستی کے نتیجے میں مسلمانوں کے ذہن میں مغربی طرزِ زندگی اور اقدار و روایات کی جو عظمت اور اپنی مذہبی تعلیمات کی کمتری کا جو احساس پیدا ہو گیا تھا وہ ختم ہو گیا۔ اس طرح مسلمانوں کو یورپ کی غلامی سے چھٹکارا مل گیا۔
ایک طرف جہاں مذہبی رہنماﺅں اور اداروں کی بالادستی سے مغربی اقدار و روایات کی بالادستی کا احساس کمزور پڑا وہاں ایک خرابی نے بھی جنم لیا یعنی ان لوگوں کے دلوں میں اس چیز سے نفرت پیدا ہونے لگی کہ جو اسلامی اقدار‘ مذہبی روایات اور مشرقی ماحول سے مطابقت نہ رکھتی تھی خواہ وہ بہتر ہو یا فائدہ مند۔
اسی احساس پر سرسید اور ان کے رفقاءنے بھرپور چوٹ لگائی اور مسلمانوں کے دلوں کو ہر اچھی چیز اپنانے کی طرف راغب کیا خواہ اس کا تعلق کسی بھی قوم یا مذہب سے ہو۔ انھوں نے جدید علوم اور انگریزوں کی اچھی اقدار و روایات کو اپنانے کی تلقین کی


اقتباس ۳

اقبال کا خیال ہے کہ انسان ایاعت‘ ضبطِ نفس اور نیابتِ الہی کی تین منزلیں طے کرتا ہوا خودی کی انتہائی منزل پر پہنچ سکتا ہے۔اس ارتقاءمیں اسے مذہب کی رہنمائی درکار ہے۔ اقبال نے چار چیزوں پر زور دیا۔ اول توحید جس پر پورا ایمان عملاً انسان کو خوف و مایوسی سے آزاد کردیتا ہے نیز توحیدِ الہی‘ توحید انسانی میں پر تو فگن ہوتی ہے ۔ دوم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور ان کی مکمل تقلید۔ سوم‘ قرآن کا مطالعہ اور اس کی تعلیمات کی پیروی۔ چہارم‘ رجائیت یعنی مایوسی اور غم پسندی کو ترک کرکے امید‘ ہمت اور جرات کی راہ اختیار کرنا۔
ربطِ ما قبل

ان سطور سے قبل میاں بشیر نے ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی زوال کا نقشہ کھینچتے ہوئے ان کی غلامی‘ انگریزوں کی حکمرانی اور ہندﺅں کی ریشہ دوانیوں کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات بیان کیے ہیں۔ مسلمان قوم کو پستی‘ ذلت اور رسوائی کے اندھیروں سے نکالنے میں سرسید اور انکے رفقاءکی خدمات کا ذکر کیا ہے۔ ساتھ ہی نیشنل کانگریس کی بنیاد مسلمانوں کے خلاف اسکی منصوبہ بندی‘ سرسید کا کانگریس اور ہندﺅں کے رویے سے اختلاف کے علاوہ ان اداروں اورتحریکات (مثلاً علی کڑھ‘ دیوبند‘ندوہ وغیرہ) کا ذکر کیا ہے۔ جنھوں نے مسلمانوں کو سیاسی‘ معاشی‘ مذہبی اور مواشرتی طور پر بیدار کیا۔
تشریح

پیشِ نظر سطور میں مصنف لکھتے ہیں کہ سرسید اور ان کی رفقاءکا مسلمانوں میں بیداری کا جذبہ پیدا کرنے میں بڑا ہاتھ تھا اسکے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں جذبہ ایمانی اور دو قومی نظریہ کے ارتقاءو اشاعت میں علامہ اقبال کا بھی بڑا دخل تھا۔ انھوںنے اپنی شاعری کے ذریعے قوم کو بیدار کیا انھیں خوابِ غفلت سے جگایا‘ عمل کی طرف راغب کیااور ان میں ایسے اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کی جو انھیں زندہ اور ترقی یافتہ قوموں کی صف میں لا کھڑا کریں۔
انھوں نے بتایا کہ انسان اس وقت ہی بشریت کی عظیم مرتبے پر فائز ہو سکتا ہے جب کہ وہ خود کو مکمل طور پر اللہ کی بندگی میں دے دے‘ اپنی خواہشات نفسانی کو قابو میں رکھے اور انھیں مرضیِ خداوندی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔
مصنف اقبال کے نظریہ خودی اور فلسفئہ حیات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ انسانوں کی مکمل انفرادی نشونما کے لئے ان چار عناصر کی موجودگی کو لازمی قرار دیا ہے ۔
وحدانیت ۔یعنی وہ اللہ کی وحدانیت کا قائل ہو اور اس کا اقرار دونوں سے ظاہر ہو‘ اس کے دل میںسوائے اللہ کے کسی کا خوف نہ ہو۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ۔اس کا دل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے لبریز ہو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہوںاور ان کی پیروی کرنا اس کی زندگی کا مقصد ہو۔
قرآن سے دلی لگاﺅ۔ وہ کریم کو ہدایت اور رہنمائی کا سرچشمہ سمجھے اور اس کے احکامات کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارے۔
رجائیت۔ یعنی اور غم پسندی کی بجائے روشن مستقبل پر اسے یقین ہو۔ وہ کوشش و کاوش کے ذریعے اپنی زندگی کو سنوارے اوراچھے نتائج کی امید کے ساتھ فیصلہ خدا پر چھوڑ دے۔
ایسا شخص جس میں مندرجہ بالا چار خوبیاں ہونگی وہی مومن ہوگا اور اللہ کا محبوب بندا کہلائے گا


اقتباس ۴

پاکستان کے قیام سے نہ صرف ہندوستان اور ایشیا میں بلکہ ساری اسلامی دنیا میں ایک ایسا قوت آفریں تغیر رونما ہو گیا ہے جس کے غیر معمولی نتائج کا دنیا ابھی صحیح طور پر اندازہ نہیں کرسکتی۔ ادھر یہ امر پاکستان کی ملتِ اسلامیہ پر روز بروزواضح ہورہا ہے کہ اگر اسے اپنی اور دنیا کی طرف اپنا اسلامی اور انسانی فرض ادا کرنا ہے تو پاکستان کی حکومت لازمی طور پر اسلامی جمہوریت کے ترقی پرور اصولوں پر قائم ہوگی‘ جس میں مسلم اور غیر مسلم سے مساوی سلوک کیا جائے گا‘ جس میں بڑے بڑے سرمایہ داروںکے لئے جگہ نہ ہوگی‘ بلکہ جس میں غریبوں اور کارکنوں کا خاص طور پر خیال رکھا جائے گا‘ جس مےں عورت کے حقوق اور اس کی شخصیت محفوظ ہوگی‘ جس میں دولت ادھر تمام لوگوں میں مناسب طور پر تقسیم ہوکر اور ادھر بیت المال میں جمع ہو کر عوام الناس کا معیار بڑ ھانے کے کام آئے گی۔
ربطِ ما قبل

ان سطور سے قبل میاں بشیر نے ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی زوال کا نقشہ کھینچتے ہوئے ان کی غلامی‘ انگریزوں کی حکمرانی اور ہندﺅں کی ریشہ دوانیوں کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات بیان کیے ہیں۔ مسلمان قوم کو پستی‘ ذلت اور رسوائی کے اندھیروں سے نکالنے میں سرسید اور انکے رفقاءکی خدمات کا ذکر کیا ہے۔ ساتھ ہی نیشنل کانگریس کی بنیاد مسلمانوں کے خلاف اسکی منصوبہ بندی‘ سرسید کا کانگریس اور ہندﺅں کے رویے سے اختلاف کے علاوہ ان اداروں اورتحریکات (مثلاً علی کڑھ‘ دیوبند‘ ندوہ وغیرہ) کا ذکر کیا ہے۔ جنھوں نے مسلمانوں کو سیاسی‘ معاشی‘ مذہبی اور مواشرتی طور پر بیدار کیا۔
ساتھ ہی انھوںنے تحریکِ پاکستان میں مسلم لیگ اور اسکے رہنما قائدِاعظم کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کی قربانیوں اور جدوجہد کا ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ قیامِ پاکستان ک دوران پیش آنے والے واقعات بیان کیے ہیں۔
تشریح

پیشِ نظر سطور میں مصنف لکھتے ہیں کہ پاکستان کے قیام نے ایشیا بلکہ ساری دنیا میں انقلاب برپا کردیا ہے خصوصاً مسلمان تحریکوں اور اسلامی دنیا کو ایک قوت بخش ولولہ آزادی کا حوصلہ ملا۔ قیامِ پاکستان اسلامی دنیا کے لئے باعثِ رحمت ہی نہیں بلکہ اس کے اثرات دنیا کی دوسری اقوام میں بھی محسوس کیے جائیں گے۔
پاکستان کو ملتِ اسلامیہ میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اسے پوری دنیا کی قیادت کے فرائض انجام دینے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے لئے مینارہ نور بن گیا پس پاکستان کی حکومت پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلامی نظریہ حیات اورسماجی حیات کو اس طرح قائم کرے کہ وہ دنیا کے لئے نمونہ بن سکے۔
تحریکِ پاکستان کے دوران ہی پاکستان کے نصب العین اور مقاصد کو واضح کردیا گیا تھاکہ یہ ایسی مملکت ہوگی جس میں ہر شہری خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو یکسان انسانی سلوک کیا جائے گا‘ ہر قسم کے ظلم کا خاتمہ ہوگا۔ حقوق نسواںکا پورا احترام کیا جائے گا۔ سرمایہ دار‘ مزدور‘ کسان‘ غریب اور امیر سب کے حقوق کا تحفظ کیا جائےگا۔ غرض ہر شخص کو ترقی کے یکساں مواقع میسر کیے جائیں گے‘ تاکہ عوام اپنا معیارِ زندگی آزادانہ طور پر بلند کر سکیں


اقتباس ۵

مسلمانوں کا نصب العین اسلام ہے۔ وہ اسلام نہیں جس کا ڈنکا مطلق العنان بادشاہوں اور خود غرض امراءنے بجایا بلکہ وہ اسلام جس کا حامل قرآن ہے جس نے صرف ان دیکھے خدا کے آگے سرجھکانا سکھایا‘ وہ اسلام جس کا نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہد میں مسلمانوں کی زندگی میں نظر آتا ہے۔ وہ سچائی‘ وہ دلیری‘ وہ خود اعتمادی‘ وہ انکسارو امن پسندی‘ وہ محنت و مساوات‘وہ صبر و تقویٰ‘ وہ مسلم و غیرمسلم‘ سب کی خدمت‘ سب کے حقوق کا تحفظ‘ سب سے رواداری اورمحبت! یہ ہے پاکستان کے مسلمانوں کا نصب العین۔
ربطِ ما قبل

ان سطور سے قبل میاں بشیر نے ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی زوال کا نقشہ کھینچتے ہوئے ان کی غلامی‘ انگریزوں کی حکمرانی اور ہندﺅں کی ریشہ دوانیوں کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات بیان کیے ہیں۔
مسلمان قوم کو پستی‘ ذلت اور رسوائی کے اندھیروں سے نکالنے میں سرسید اور انکے رفقاءکی خدمات کا ذکر کیا ہے۔ ساتھ ہی نیشنل کانگریس کی بنیاد مسلمانوں کے خلاف اسکی منصوبہ بندی‘ سرسید کا کانگریس اور ہندﺅں کے رویے سے اختلاف کے علاوہ ان اداروں اورتحریکات (مثلاً علی کڑھ‘ دیوبند‘ ندوہ وغیرہ) کا ذکر کیا ہے۔ جنھوں نے مسلمانوں کو سیاسی‘ معاشی‘ مذہبی اور مواشرتی طور پر بیدار کیا۔
ساتھ ہی انھوں نے تحریکِ پاکستان میں مسلم لیگ اور اسکے رہنما قائدِاعظم کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کی قربانیوں اور جدوجہد کا ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ قیامِ پاکستان ک دوران پیش آنے والے واقعات بیان کیے ہیں۔
ان سطر سے قبل خاص طور پر دو قومی نظریے کے حوالے سے ان باتوں کو بیان کیا گیا ہے جسکو بنیاد بناکر ہم پاکستان بنانا چاہتے تھے۔ مثلاً سماجی معاشی اور مذہبی انصاف کی فراہمی۔
تشریح

پیشِ نظر سطور سبق کا آخری حصہ ہے جس میں مصنف نے اسلامی نظریات اور مسلمانوں کے نصب العین کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسلام کے بارے میں یہ تصور غلط ہے کہ یہ امراءاور بادشاہوں کا مذہب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام ایک ضابطہ حیات ہے جوکہ قرآن پر مبنی ہے اور جاہلوں‘ ظالموں‘ مفاد پرستوں اور امراءکے اذہان کی پیداوار نہیں۔ اسلام ایک الہامی دین ہے جس میں انسانیت کی بھلائی کا ذکر مضمر ہے اس کا مخاطب ہر انسان ہے۔ اسلام تمام جھوٹے دنیاوی خداﺅں سے منہ موڑ کر اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرنے ‘ اسے کائنات کا حاکم مطلق جاننے‘ قرآنِ مجید کو انسانی ضابطہ حیات سمجھنے ‘ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار صحابہ کرام رضہ سے محبت و الفت رکھنے اور انکی مکمل پیروی کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
مسلمان حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضہ کی صفات کا امین ہوتا ہے۔ خود اعتمادی یعنی اپنی ذات پر بھروسہ اسکا جوہر‘ انکساری‘ عاجزی اور امن پسندی اسکا شیوہ‘ جہد و عمل اور سعی اسکی عادت‘ صبرو تقویٰ اور پرہیزگاری‘ اس کا سب سی مساوی سلوک‘ اس کا نعرہ‘ رواداری‘ حسنِسلوک اور خدمتِ خلق اس کی فطرت‘ ہر ایک سے محبت اور ہر ایک کے حقوق کا تحفظ اس کا ایمان ہے۔ یہی لوازمات ِ مومن ہیں جو پاکستان کے مسلمانوں کا نصب العین اور شعار
ہے

----------------------------


Sach Aur Jhoot Ka Rizmnama

Sach Aur Jhoot Ka Rizmnama سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ حوالہ

 1st Year Urdu Notes (اردو)

Sach Aur Jhoot Ka Roznama


سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ

حوالہ

پیشِ نظر اقتباس محمد حسین آزاد کے مضمون سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ سے لیا گیا ہے۔ یہ تمثیلی مضمون مصنف کی کتاب نیرنگ خیال سے اخذکردہ ہے۔
تعارفِ مصنف

محمد حسین آزاد ایک صاحبِ طرز انشاءپرداز، زبان دان، نقاد اور شاعر ہیں۔ اردو کے عناصر خمسہ میں اپنی رنگین بیانی کے لحاظ سے آپ کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ آپ کی تحریروں میں فکر کے موتی، علم کے چراغ، ظرافت کے پھول، فن کی روشنی اورتحقیق کی چاندی سب ہی کچھ شامل ہے۔ محمد حسین آزاد کے منفرد اندازِ بیان کی بناءپر صاحبِ علم طبقے نے آپ کو ”آقائے سخن“ کے لقب سے نوازا ہے۔ بقول مولانا صلاح الدین:
الفاظ کے جو نگینے اس نادر کار نے اپنی عبارت کے کندن میں جڑے ہیں اور تشبیہات کے جن گہرہائے آبدار سے اُس نے اپنی نگارش کی تزئین کی ہے، اُن کی درخشانی اور جمال آج بھی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔
تعارفِ سبق

دنیا جب سے معرضِ وجود میں آئی ہے اُس میں سچ اور جھوٹ اور حق و باطل کی جنگ جاری ہے۔ انسان کو انسان بنانے کے لئے خیر کی قوتیں ہزاروں برس سے لگی ہوئی ہیں اور شر کی کھوکھلی طاقتیں اُس کو حیوان بنانے میں سرگرمِ عمل ہیں۔ جھوٹ ہزاروں بھیس بدل کر سچائی کے راستے کی رکاوٹ بنتا ہے مگر سچائی اُسے قدموں تلے روند کر اپنی منزل کی طرف گامزن ہو جاتی ہے۔ اِس لافانی حقیقت کو مولانا آزاد نے تمثیلی انداز میں سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ کے عنوان سے پیش کیا ہے۔ بقول شاعر
ہزار باد مخالف کا زور ہو لیکن
سفینے شدت طوفان کو مات دے دیں گے


اقتباس ۱

واضح ہو کہ ملکہ صداقت زمانی سلطانِ آسمانی کی بیٹیتھی‘ جو کہ ملکہ دانش خاتون کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھی۔ جب ملکئہ موصوفہ نے ہوش سنبھالا تو اول تعلیم و تربیت کے سپرد ہوئی۔ جب انھوں نے اس کی پرورش میں اپنا حق ادا کردیا تو باپ کے دربار میں سلام کو حاضر ہوئی۔ اسے نیکی اور نیک ذاتی کے ساتھ خوبیوں اور محبوبیوں کے زیور سے آراستہ دیکھ کر سب نے صدقِ دل سے تعریف کی عزتِ دوام کا تاجِ مرصع سر پر رکھا گیا حکم ہوا کہ جاﺅ‘ اولادِ آدم میں اپنا نور پھیلاﺅ۔
تشریح

پیشِ نظر سطور مضمون کا ابتدائی حصہ ہے جس میں انھوںنے صداقت کی سچائی اور صداقت کے خاندان سے آگاہ کرتے ہوئے اس کی خوبیوں کو بیان کیا ہے۔ مولانا آزاد کہتے ہیں کہ صداقت یا سچائی نے ملکہ دانش یعنی فہم و فراست کی گود سے جنم لیا اور وہ سلطانِ آسمانی کی شفقت میں پروان چڑھی جسکو بلحاظِ تعلیم و تربیت قدرت نے شاہکار اور بے مثل بنایا تھا۔ جوان ہونے پر اپنے باپ جو آسمان کے روپ میں ساری دنیا کا احاطہ کیے ہوئے ہے کہ روبرو حاضر ہوئی تاکہ دنیا میں اپنے کردار کی ادائیگی کے لئے اجازت حاصل کرسکے۔
مولانا کہتے ہیں کہ سلطانِ آسمانی نے صداقت زمانی کو نیکی‘ بھلائی اور دیگر پسندیدہ اوصاف کا مالک پایا۔ اہلِ دربار نے بھی اس کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی تعریف کی باپ نے اسکے سر پر ہمیشہ قائم رہنے والے وقار کا سجا ہوا تاج رکھا۔ اسے دعائیں دیں کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو‘ اس کی حکمرانی ہمیشہ ہمیشہ قائم و دائم رہے اور حکم دیا کہ دنیا میں جا کر لوگوں میں اپنی روشنی پھیلاﺅ‘ ان کی رہنمائی کرو تاکہ اولادِآدم (انسان) تاکہ انسان کے شر سے محفوظ رہ سکے کیونکہ یہ شیطانی قوتیں مختلف روپ دھار کر گمراہ کرتی رہتی ہیں۔ تمھارے وجود سے ان میں حق و باطل کی تمیز پیدا ہوگی اور وہ تمھارے طفیل بدی کی قوتوں کو شکست دے کر اپنے مقصدِ تخلیق سے نہ بھٹک سکیں


اقتباس ۲

عالمِ سفلی میں دروغ ِدیوزاد ایک سفلئہ نابکار تھا کہ حمق تیزہ دماغ اس کا باپ تھا اور ہوس ہوا پرست اس کی ماں تھی‘ اگرچہ اسے دربار میں آنے کی اجازت نہ تھی‘ مگرجب کبھی کسی تفریح کی صحبت میں تمسخر اور ظرافت کے بھانڈ آیا کرتے تھے تو ان کی سنگت میں وہ آجاتا تھا۔ اتفاقاً اس دن بھی وہ آیا ہوا تھا اور بادشاہوں کو ایسا خوش کیا ہوا تھا کہ اسے ملبوسِ خاص کا خلعت مل گیا۔ یہ منافق دل میں سلطانی آسمانی سے سخت عداوت رکھتا تھا۔ ملکہ کی قدرو منزلت دیکھ کر اسے حسد کی آگ نے بھڑکایا۔چنانچہ وہاں سے چپ چپاتے نکلا اورملکہ کے عمل میں خلل ڈالنے کو ساتھ ساتھ روانا ہوا۔
ربطِ ما قبل

دی گئی سطور سے قبل مضمون میں صداقت زمانی کے خاندان کا تعارف اسکی تعلیم و تربیت‘ اوصافِ حمیدہ اور اس کے بعد سلطانِ آسمانی کی ہدایت کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس میں اس کے باپ نے اس کے سر پر ہمیشہ رہنے والا عزت و وقار کا تاج سجاکر اسے دنیا میں حق و صداقت اور نیکی اور بھلائی پھیلانے کے لئے بھیجا تاکہ اولاد آدم شیطانی قوتوں کے فریب سے محفوظ رہ سکے۔
تشریح

پیشِ نظر سطور میں مولانا لکھتے ہیں کہ دنیا میں صداقت زمانی جیسی عظیم قوت جو نیکی اور سچائی کی ضمانت ہے اسکے مدِمقابل دوسری دیوہیکل شیطانی قوت دروغ یا جھوٹ تھا جس کا باپ تاریک الدماغ‘ منفی سوچ کا حامل‘ بے ہودہ اور قابلِ نفرت اوصاف کا حامل احمق تھا اور ماں نفسانی خواہشات کی پجاری ہوس تھی۔
ویسے تو اس شیطان صفت دروغ کو ناپسندیدہ اور نامعقول سمجھتے ہوئے سلطانی آسمانی نے اپنی مجلس میں آنے کی اجازت نہ دی مگر پھر بھی وہ موقع ملتے تفریح یا ہنسی مذاق کی محفلوں میں یا جشن کی محفلوں میں مراثیوں کے حلئے میں چھپ کر آجاتاجو سوانگ بھر کر اور روپ بدل بدل کر اہلِ مجلس کے دلوں کو لبھانے اورجھوٹی مسرتوں سے ان کے قلوب کو بہلانے کی خاطر آیا کرتے تھے۔ ان کے توسط سے دربار میں پہنچ کر وہ اپنی کرشمہ سازیوں اور فتنہ سازیوں کے جادو جگایا کرتا تھا۔
یہ شیطانی فرزند دروغ‘ سلطانی آسمانی اور اس کی لاڈلی بیٹی صداقت زمانی سے حد درجہ نفرت اوردل میں نفاق رکھتا تھا۔ جب اس نے دربار میں صداقت زمانی کا یہ وقار دیکھا اور اس کے باپ سلطانِ آسمانی کا اسکو دنیا میں بھیجنے کا سندیسہ سنا تو پیچ و تاب کھاتا ہوا دربار سے کھسک کر اسکے خلاف برسرِپیکار ہونے کی خاطر دنیا میں پہنچا تاکہ انسانوں کے دلوں پر اپنی حکمرانی قائم کر سکے


اقتباس ۳

جب یہ دو دعویدار نئے ملک اور نئی رعیت کے تسخیر کرنے کو اٹھے‘ تو چوں کہ بزرگانِ آسمانی کو ان کی دشمنی کی بنیاد ابتدا سے معلوم تھی‘ سب کی آنکھیں ادھر لگ گئیں کہ دیکھیں ان کی لڑائی کا انجام کیا ہو؟
ربطِ ما قبل

پیشِ نظر سطور سے قبل مولانا آزاد نے صداقت زمانی اور دروغ جو ایک دوسرے سے متضاد خوبیوں کے حامل تھے‘ کے خاندان کا تعارف اور ان کی مثبت اور منفی خوبیوں کو بیان کیا ہے اوربتایا ہے کہ دروغ‘ صداقت زمانی کے ساتھ اس کی حکمرانی میں خلل ڈالنے اور اس کے بھلائی نیکی کے مشن کو ناکام بنانے کے لئے دنیا میں آموجود ہوا۔
تشریح

پیشِ نظر سطورمیں آزاد کہتے ہیں کہ جیسی ہی سچ اور جھوٹ کی قوتوں نے دنیا میں اپنا اپنا ڈیرہ جمایا اور ایک دوسرے کے صف آراءہوگئے تو ان میں سے ہر ایک کی یہ کوشش تھی کہ انسانوں پر اپنی بالادستی قائم کرے اور دوسرے کے اثرات کو مرتب نہ ہونے دے۔ چنانچہ دونوں اپنے اپنے مشن کی کامیابی کےلئے پوری توانائیوں کے ساتھ مستحرک ہوگئے۔ جھوٹ کی پوری کوشش ہوتی کہ اولاد آدم اس کے جال میں گرفتار ہو کر بدی کی عاشق ہوجائے اور نیکی ترک کردے۔ جب کہ سچائی کی بھرپور کوشش تھی کہ انسان دروغ کے جال میں پھنس کر راہِ حق اور بھلائی کے راستے سے نہ بھٹکیں۔ وہ انسانوں کو دروغ کے فریب اور شیطانی صفات سے آگاہ کرتی رہتی غرض کہ دونوں اسی تگ و دو میں مصروف رہتے اور مقابلہ جاری رہتا۔
آسمانی مخلوق فرشتے دنیا پر نگاہیں جمائے ان دونوں کی معرکہ آرائی دیکھتے رہتے اور اس کے نتائج جاننے کے لئے مسلسل اسی طرف متوجہ رہتے تاکہ انھیں معلوم کہ کون دروغ کا پرستار‘ جھوٹ کا دلدادہ ہے اور کون سچ کا مطیع‘ نیکی کا امین اور حق و صداقت کا طرفدار ہے غرض وہ اس معرکہ آرائی میں فاتح اور شکست خوردہ کردار سے آگاہ ہونا چاہتے تھے


اقتباس ۴

دروغِ دیوزاد بہروپ بدلنے میں تاک تھا‘ ملکہ کی ہر بات کی نقل کرتا تھا اور نئے نئے سوانگ بھرتا تھا‘ تو بھی وضع اس کی گھبرائی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ دنیا کی ہواوہوس‘ ہزاروں رسالے اور پلٹنیں اس کے ساتھ لئے تھیںاور کیونکہ یہ ان کی مدد کا محتاج تھا‘ اسی لئے لالچ کا مارا کمزور تابعداروں کی طرح ان کے حکم اٹھاتا تھا۔ ساری حرکتیں اس طرح کی بے معنی تھیں اور کام بھی الٹ پلٹ بے اوسان تھے کیونکہ استقلال ادھر نہ تھا۔ اپنی شعبدہ بازی اور نیرنگ سازی سے فتحیاب تو جلد ہو جاتا مگر تھم نہ سکتا تھا‘ ہواوہوس اس کے یار وفادار تھے اور اگر کچھ تھے تو وہ ہی سنبھالے رہتے تھے۔
ربطِ ما قبل

پیشِ نظر سطور سے قبل مولانا آزاد نے صداقت زمانی اور دروغ جو ایک دوسرے سے متضاد خوبیوں کے حامل تھے‘ کے خاندان کا تعارف اور ان کی مثبت اور منفی خوبیوں کو بیان کیا ہے اوربتایا ہے کہ دروغ‘ صداقت زمانی کے ساتھ اس کی حکمرانی میں خلل ڈالنے اور اس کے بھلائی نیکی کے مشن کو ناکام بنانے کے لئے دنیا میںآموجود ہوا اور بتایا گیا ہے کہ جب دونوں قوتیں دنیا میں برسرِپیکار ہو گئیںتو آسمانی مخلوق یعنی فرشتے بھی اس معرکہ کا مشاہدہ کرتے اور نتیجے کا بے تابی سے انتظار کرتے کہ کون فاتح اور کون مفتوح ٹھہرے گا۔
غرض کہ ملکہ صداقت شاہانہ وقار اور دبدبہ سے کامیابی کے یقین کے ساتھ دنیا میں آموجود ہوئی۔ ہر جگہ اس کا والہانہ استقبال ہوا یعنی لوگوں نے سچائی کو اختیار کیا اور اس پر ڈٹے رہے۔
تشریح

پیشِ نظر اقتباس میں آزاد سچ اور جھوٹ کے جاہمی مقابلے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قوی‘ دیوہیکل اور شیطانی صفات کا حامل دروغ ایک بہروپیا تھا۔ وہ روپ بدل بدل کر وار کرنے میں مہارت رکھتا تھا۔ کبھی وہ سچ کا فرضی روپ دھار کر انسانوں کو بہکاتا کہ وہ ہی اصل نیکی ہے لیکن جب وہ اپنے اس فریب کا جال بچھاتا تو جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے کے مضداق ہر لمحے اس پر بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ طاری رہتی۔ دوسروں کو فریب دینے میں بے شمار قوتیں اسکی مددگار اور معاون ہوتیں‘ اس موقع پر وہ ہوس‘ لالچ‘ بے غیرتی‘ بے حیائی‘ دغا اور طراری جیسی قوتوں کو حملہ آور ہونے کا حکم دیتا۔ یہ قوتیں انسانوں کے دلوں میں دروغ کی اہمیت اور صداقت کی کمتری کا احساس کرکے باور کراتیںہیں کہ فرتح و سربلندی جھوٹ کے سر ہے جو جتنا جھوٹ بول سکتا ہے وہ اتنا ہی کامیاب ہے۔دغاو فریب جو دروغ کے چہیتے تھے‘ انسانوں کو دروغ کے جال مےں پھنسانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں


اقتباس ۵

کبھی کبھی ایسا بھی ہوجاتا کہ دونوں کا آمنا سامنا ہو کر سخت لڑائی آپڑتی تھی۔ اس وقت دروغِ دیوزاد اپنی دھوم دھام بڑھانے کے لئے سر پر بادل کا دھواں دھار پگڑ لپیٹ لیتا تھا۔ لاف و گزاف کو حکم دیتا کہ شیخی اور نمود کے ساتھ آگے جاکر غل مچانا شروع کردو۔ ساتھ ہی دغا کو اشارہ کردیتا کہ گھات لگاکر بیٹھ جاﺅ‘ دائیں ہاتھ میں طراری کی تلوار‘ بائیں ہاتھ میں بے حیائی کی ڈھال ہوتی تھی‘ غلط نما تیروں کا ترکش آویزاں ہوتا تھا۔ ہوا و ہوس دائیں بائیں دوڑتے پھرتے تھے‘ دل کی ہٹ دھرمی‘ بات کی پچ پیچھے سے زور لگاتے تھے۔ غرض کبھی مقابلہ کرتا تھا تو ان زوروں کے بھروسے کرتا تھا اور باوجود اس کے ہمیشہ یہی چاہتا تھا کہ دور دور سی لڑائی ہو۔ میدان میں آتے ہی تیروں کی بوچھاڑ کر دیتا تھامگر وہ بھی بادِہوائی‘ اٹکل پچو‘ بے ٹھکانے ہوتے تھے۔ خود ایک جگہ پر نہ ٹھہرتا تھا‘ دم بدم جگہ بدلتا تھاکیونکہ حق کی کمان سے جب تیرِنظر اس کی طرف سر ہوتا تھا تو جھٹ تاڑ جاتا تھا۔
ربطِ ما قبل

پیشِ نظر سطور سے قبل مولانا آزاد نے صداقت زمانی اور دروغ جو ایک دوسرے سے متضاد خوبیوں کے حامل تھے‘ کے خاندان کا تعارف اور ان کی مثبت اور منفی خوبیوں کو بیان کیا ہے اوربتایا ہے کہ دروغ‘ صداقت زمانی کے ساتھ اس کی حکمرانی میں خلل ڈالنے اور اس کے بھلائی نیکی کے مشن کو ناکام بنانے کے لئے دنیا میںآموجود ہوا اور بتایا گیا ہے کہ جب دونوں قوتیں دنیا میں برسرِپیکار ہو گئیںتو آسمانی مخلوق یعنی فرشتے بھی اس معرکہ کا مشاہدہ کرتے اور نتیجے کا بے تابی سے انتظار کرتے کہ کون فاتح اور کون مفتوح ٹھہرے گا۔
غرض کہ ملکہ صداقت شاہانہ وقار اور دبدبہ سے کامیابی کے یقین کے ساتھ دنیا میں آموجود ہوئی۔ ہر جگہ اس کا والہانہ استقبال ہوا یعنی لوگوں نے سچائی کو اختیار کیا اور اس پر ڈٹے رہے۔
لیکن دروغ چونکہ بہروپیا تھا مختلف روپ دھار دھار کر لوگوں کو اپنے معاونین کی مدد سے اپنے فریب کے جال میں پھنسا کر وقتی طور پر صداقت کو شکست دینے کی کوشش کرتااور کبھی کبھی وہ کامیاب بھی ہوجاتا مگر اس کے پیر نہ جمتے۔
تشریح

پیشِ نظر سطور میں آزاد کہتے ہیں کہ جب کبھی اتفاقاً سچ اور جھوٹ کا آمنا سامنا ہوجاتا اور مورکہ آرائی ہوتی تو دروغ اپنی حیثیت اور طاقت بڑھا چڑھا کر پیش کرتا تاکہ اس شوروغل سے سچ مرعوب ہوجائے ساتھ ہی شیخی اور فریب جیسی قوتوں کو ابھارتا تاکہ سچائی کے قدم اکھاڑنے میں وہ اس کی مدد کریں۔ دروغ صرف انہی دو قوتوں کا سہارا نہ لیتا بلکہ اسی طرح کی دوسری قوتوں مثلاً زبان درازی‘ بے شرمی اور بے غیرتی کو بھی مستحرک کردیتا اور انھیں کام لاتا۔ لالچ اور ہوس کے کاندھوں پر سوارہوجاتا غرض دروغ ان شیطانی قوتوں کے ذریعے بھرپور حملے کرتا۔ دورانِ جنگ کبھی بھی ایک مخصوص مقام پر نہ ٹھہرتا ‘ اپنے موقف میں تبدیلی کرتا رہتا اور غیر مستقل مزاجی کو اپنائے رکھتا۔ جونہی صداقت کی نظر اس پر اٹھتی اور اس کی حرکتوں پر دشمنانہ نظر ڈالتی تو دروغ فوراً سمجھ جاتا کہ اب اس کی خیر نہیں


اقتباس ۶

ملکہ کے ہاتھ میں اگرچہ باپ کی کڑک بجلی کی تلوار نہ تھی مگر تو بھی چہرہ ہیبت ناک تھا اور رعبِ خداداد کا خَودسر پر دھرا تھا جب معرکہ مار کر ملکہ فتحیاب ہوتی تھی تو یہ شکست نصیب اپنے تیروں کا ترکش پھینک‘ بے حیائی کی ڈھال منہ پر لے‘ ہواوہوس کی بھیڑ میں جاکر چھپ جاتاتھا۔ نشانِ لشکر گرپڑتا تھا اور لوگ پھریرا پکڑے زمین پر گھسیٹتے پھرتے تھے۔
ربطِ ما قبل

پیشِ نظر سطور سے قبل مولانا آزاد نے صداقت زمانی اور دروغ جو ایک دوسرے سے متضاد خوبیوں کے حامل تھے‘ کے خاندان کا تعارف اور ان کی مثبت اور منفی خوبیوں کو بیان کیا ہے اوربتایا ہے کہ دروغ‘ صداقت زمانی کے ساتھ اس کی حکمرانی میں خلل ڈالنے اور اس کے بھلائی نیکی کے مشن کو ناکام بنانے کے لئے دنیا میںآموجود ہوا اور بتایا گیا ہے کہ جب دونوں قوتیں دنیا میں برسرِپیکار ہو گئیںتو آسمانی مخلوق یعنی فرشتے بھی اس معرکہ کا مشاہدہ کرتے اور نتیجے کا بے تابی سے انتظار کرتے کہ کون فاتح اور کون مفتوح ٹھہرے گا۔
غرض کہ ملکہ صداقت شاہانہ وقار اور دبدبہ سے کامیابی کے یقین کے ساتھ دنیا مےں آموجود ہوئی۔ ہر جگہ اس کا والہانہ استقبال ہوا یعنی لوگوں نے سچائی کو اختیار کیا اور اس پر ڈٹے رہے۔
لیکن دروغ چونکہ بہروپیا تھا مختلف روپ دھار دھار کر لوگوں کو اپنے معاونین کی مدد سے اپنے فریب کے جال میں پھنسا کر وقتی طور پر صداقت کو شکست دینے کی کوشش کرتااور کبھی کبھی وہ کامیاب بھی ہوجاتا مگر اس کے پیر نہ جمتے۔ البتہ وہ سچائی کو مرعوب کرنے کی خاطر بڑی بڑی باتیں بناتا اور شوروغل کرتا ساتھ ہی دغا‘ فریب‘ طراری‘ بے شرمی‘ ہٹ دھرمی اور نمودونمائش کے ہتھیار استعمال کرتا تاکہ صداقت زمانی کو زیر کرسکے۔
تشریح

پیشِ نظر سطور میں آزاد لکھتے ہیں کہ دروغ اور صداقت کی معرکہ آرائی میں سچائی اپنی روحانی اور باطنی قوتوں پر بھروسہ کرتی اسکے ہاتھ میں اپنے باپ سلطانِ آسمانی کی تیز دھار تلوار بھی نہ ہوتی جسے چلا کر شیطانی قوتوں کی صف کو تہہ و بالا کردےتی وہ اسی تلوار کو اپنے اس لئے کام میں نہ لاتی کہ اسکی خواہش تھی کہ وہ دلوں پر حکومت کرے اس کی نظر میں خون خرابہ مسائل کا حل نہ تھا۔ جب جھوٹ کے مدِ مقابل آتی تو اس کے چہرے پر خاص رعب و جلال اور اسکے سر پر اللہ کی رحمتوں کا تاج ہوتا اس لئے وہ جنگ جیت جاتی اور دروغ کو شکستِ فاش ہوجاتی۔ وہ میدان میں سارے تیر و کمان پھینک کر فرار ہوجاتااور دنیاوی خواہشات و طمع اور لالچ و ہوس کے دامن میں پناہ لے لیتا۔ اس وقت اسکے چہرے پر بے غیرتی کی نقاب رہ جاتی اور ملکہ صداقت زمانی یہ سوچ کر آگے بڑھ جاتی کہ اب دروغ شرم‘ ذلت اور رسوائی کی وجہ سے آما دئہ فساد نہ ہوگا۔ لیکن وہ بے غیرت ابتدائی حقارت و ذلت کے باوجود اپنی حرکتوں سے باز نہ آتا


اقتباس ۷

ملکہ صداقت زمانی کبھی زخمی بھی ہوتی‘ مگر سانچ کو آنچ نہیں‘ زخم جلد بھر آتے تھے اور وہ جھوٹا نابکار جب زخم کھاتا تو ایسے سڑتے کہ اوروں میں بھی وبا پھیلادیتے تھے۔ مگر زرا انگور بندھے اور پھر میدان میں آکودا۔
ربطِ ما قبل

پیشِ نظر سطور سے قبل مولانا آزاد نے صداقت زمانی اور دروغ جو ایک دوسرے سے متضاد خوبیوں کے حامل تھے‘ کے خاندان کا تعارف اور ان کی مثبت اور منفی خوبیوں کو بیان کیا ہے اوربتایا ہے کہ دروغ‘ صداقت زمانی کے ساتھ اس کی حکمرانی میں خلل ڈالنے اور اس کے بھلائی نیکی کے مشن کو ناکام بنانے کے لئے دنیا میںآموجود ہوا اور بتایا گیا ہے کہ جب دونوں قوتیں دنیا میں برسرِپیکار ہو گئیںتو آسمانی مخلوق یعنی فرشتے بھی اس معرکہ کا مشاہدہ کرتے اور نتیجے کا بے تابی سے انتظار کرتے کہ کون فاتح اور کون مفتوح ٹھہرے گا۔
غرض کہ ملکہ صداقت شاہانہ وقار اور دبدبہ سے کامیابی کے یقین کے ساتھ دنیا مےں آموجود ہوئی۔ ہر جگہ اس کا والہانہ استقبال ہوا یعنی لوگوں نے سچائی کو اختیار کیا اور اس پر ڈٹے رہے۔
لیکن دروغ چونکہ بہروپیا تھا مختلف روپ دھار دھار کر لوگوں کو اپنے معاونین کی مدد سے اپنے فریب کے جال میں پھنسا کر وقتی طور پر صداقت کو شکست دینے کی کوشش کرتااور کبھی کبھی وہ کامیاب بھی ہوجاتا مگر اس کے پیر نہ جمتے۔ البتہ وہ سچائی کو مرعوب کرنے کی خاطر بڑی بڑی باتیں بناتا اور شوروغل کرتا ساتھ ہی دغا‘ فریب‘ طراری‘ بے شرمی‘ ہٹ دھرمی اور نمودونمائش کے ہتھیار استعمال کرتا تاکہ صداقت زمانی کو زیر کرسکے۔ لیکن جب ملکہ صداقت خداداد قوتوں کے ساتھ حملہ آور ہوتی تو دروغ شکست کھاکر لالچ اور ہوس کے ہجوم میں بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھپ جاتا‘ مگر موقع ملتی ہی پھر برسرِپیکار اور آمادئہ فساد ہوجاتا۔
تشریح

پیشِ نظر سطور میں مولانا آزاد لکھتے ہیں کہ دورانِ جنگ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سچائی وقتی پر زخمی ہوجاتی ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ میں بڑی طاقت ہے اور بدی بھی پرزور ہے لیکن ان کا یہ قیاس کچھ ہی عرصے میں کافور ہوجاتا ہے کچھ ہی وقفے کے بعد سچائی صحت یاب ہو کر لوگوں کے دلوں کو مسخر کرتی ہے اور ان پر واضح کردیتی ہے کہ سچائی پھر سچائی ہوتی ہے اور جھوٹ کے پیر نہےں ہوتے ہےں۔ سچائی ہی ہمیشہ رہنے والی صفت ہے اسی میںدائمی غلبے کی خوبی پائی جاتی ہے اور اسے مستقل شکست نہیں دی جاسکتی۔
البتہ دروغ جب زخمی ہوتا تو اپنے زخموں کے جراثیم اوروں میں بھی پھیلاتااور بے غیرت اور بے حیا بن کر زخم بھرتے ہی اپنی خباستوں کو وام کرنے کے لئے سچائی کے خلاف پھر صف آراءہوجاتا ہے بہرحال ہر بار شکست کھاتا اور سچائی سرخرو ہوتی واقعی حق ہی باطل پر غلب آنے کے لئے ہے


اقتباس ۸

ملکہ کی شان شاہانہ تھی اور دبدبہ خسروانہ تھا۔ اگرچہ آہستہ آہستہ آتی تھی مگر استقبال رکاب پکڑے تھا اور جو قدم اٹھتا تھا دس قدم آگے پڑتا نظر آتا تھا۔ ساتھ اس کے جب ایک دفعہ جم جاتا تھا تو انسان کیا فرشتے بھی نہیں ہٹا سکتے تھے۔
تشریح

مندرجہ بالا اقتباس میں مصنف نے سچائی کی ملکہ، ملکہ صداقت زمانی کی میدانِ جنگ میں آمد کا ذکر کیا ہے اور اُس کی شان و شوکت بیان کی ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ سچائی و صداقت کی اِس ملکہ کا مرتبہ نہایت ہی بلند ہے اور اِس کی شان و شوکت آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے۔ اِس شخصیت کے پُرنور چہرے سے حق گوئی کا عکس نظر آتا۔ یہ نہایت آہستگی پر مستقل مزاجی سے اپنے قدم بڑھاتی ہے ۔اِس کا منزل کی جانب ہر بڑھتا قدم اس بات کی بشارت دیتا کہ منزل دور نہیں ہے اور ایسا لگتا ہے مقصد حاصل ہو گیا ہے۔ یہ ملکہ ایک مرتبہ کسی جگہ پر اپنا پُرزور قدم جما دے تو اِس قدر مستقیم ہو تا ہے کہ اِس کو ہٹانا کسی انسان کے بس میں نہیں رہتا۔ اِس مضبوط قدم کو فرشتے جیسی مخلوق بھی نہیں ہلا سکتی۔ اِس عبارت میںمصنف نے ایک نہایت ہی قابلِ غور بات پیش کی ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ سچائی و صداقت ایک ایسی اٹل اور خوبصورت حقیقت ہے کہ ہر جگہ اِس کا زور ہوتا ہے۔ تمام عاقل و بالغ، ذہین و فطین لوگ سچائی کی بدولت ہیں اور سچ کو ایک نہایت اہم مرتبہ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سچ کی ابتداءہوتی ہے تو ہزاروں گواہیاں اِس کے حق میں آتی ہیں۔سچائی کا زور آہستہ آہستہ بلند ہوتا ہے اور بلند ہونے کے ساتھ ساتھ پوری طرح معاشرے میں سرائیت کر جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں امن و سکون اور چین کی بانسری بجتی ہے اور تمام انسانوں کو اُن کے مقصد کے حصول میں آسانی ہو جاتی ہے۔ صداقت کی مہک اگر ایک مرتبہ پھیل جائے تو پورے گلشن کو دل نشین بنا دیتی ہے اور اس خوشبو کو کوئی بھی نہیں مٹا سکتا۔ یہ خوشبو ہر نئے آنے والے کے لئے حصولِ منزل کی راہ ہموار کرتی ہے اور اِس کی بدولت بندہ مومن اطمینان و سکون کے ساتھ اپنا منشاءحاصل کر لیتا ہے

 

Rasam-o-Riwaj ki pabandi kay Nuksanaat

Rasam-o-Riwaj ki pabandi kay Nuksanaat رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات

Rasam-o-Riwaj ki pabandi kay Nuksanaat


رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات

حوالہ

پیشِ نظر عبارت رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات سے لی گئی ہے جس کے مصنف سر سیّد احمد خان ہیں۔ یہ مضمون سر سیّد کی کتاب ”مقالاتِ سر سیّد“ سے لیا گیا ہے۔
تعارفِ مصنف

جدید اردو ادب کے بانی سر سیّد احمد خان کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ کا شمار اردو ادب کے نامور نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔ سر سیّد کا دائرہ ادب نہایت وسیع ہے۔ مقصدیت‘ منطقیت‘ سلاست‘ اضطراب اور بے ساختگی وہ چند خصوصیات ہیں جو سرسیّد کی تحریر کے مطالعے کے بعد قاری کے ذہن میں نقش ہو جاتی ہیں۔ اردو زبان کے لئے آپ کی اَن گِنت خدمات ہیں اور اردو کی لامتناہی ترقی آپ ہی کی مرہونِ منت ہے۔ بقول مولوی عبدالحق:
یہ سر سیّد ہی کا کارنامہ تھا جس کی بدولت ایک صدی کے قلیل عرصے میں اردو ادب کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔
تعارفِ سبق

یہ مضمون رسم و رواج کی کورانہ تقلید کے نقصانات کو اُجاگر کرتا ہے۔ اِس میں اندھی تقلید کے مضمرات واضح طور پر بیان کئے گئے ہیں اور نہایت مو�¿ثر اندار میں قوموں کے عروج و زوال کی وجہ بتائی ہے۔ سرسیّد نے استدلال اور منطق سے کام لیتے ہوئے اس نکتے کو پیش کیا ہے کہ بے جا رسم و رواج کی پابندی سے انسان کی تخلیقی صلاحیتیں مانند پڑ جاتی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ فنا ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ قوموں سے ان کی آزادی اور ترقی چھین لیتی ہے۔


اقتباس ۱

جو امر کہ پسندیدہ اور تسلیم کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ لوگ اپنے فہم اور اپنی عقل سے کام لیں اور رسم و رواج کی پابندی بھی ایک معقول طور پر رکھیں ۔ یعنی کہ جو عمدہ و مفید ہوں اُن کو اختیار کریں‘ جو قابل اصلاح ہوں ان میں ترمیم کریں اور جو بری اور خراب ہوں ان کی پابندی چھوڑ دیں۔
تشریح

سر سید احمد خان اس عبارت میں اس وجہ کو بیان کر رہے ہیں جس پر عمل کر کے کوئی قوم ترقی کی جانب گامزن ہو جاتی ہے یا اگر کوئی قوم پستی سے نکلنا چاہتی ہو تو اسے اس فعل کو سرانجام دینا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کے لوگوں کو اپنے آباﺅ اجداد کے بنائے ہوئے اصولوں کی کورانہ تقلید سے پرہیز کرنا چاہئے۔ انہیں اپنی عقل‘ اپنی سوچ‘ اپنے خیالات اور اپنے فہم سے کام لیتے ہوئے ان رسومات کو اچھی طرح پرکھنا چاہئے اور ان کے فوائد و نقصانات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔ ان رسومات و پابندیوں پر تحقیق کر لینے کے بعد ان کو یہ فیصلہ کر نا چاہئے کہ ان ضوابط میں سے کون سے ان کے لئے مفید ہیں اور کن کی پیروئی سے انہیں نقصان ہوگا۔ سرسید کہتے ہیں کہ بے جا اور فضول رسومات کو ترک کر کے ایسی تہذیب و تمدن ترتیب دینا بہتر ہے جس سے عہدِ حاضر کا معاشرہ مستفید ہو۔ ان کا خیال یہ بھی ہے کہ اگر پرانی اور عائد کردہ رسومات میں کوئی خامی ہے تو اس کو دور کر کے اپنانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن آنکھیں بند کر کے اپنے آپ کو ان قوانین کی زنجیروں میں جکڑ لینا نہایت نقصان دہ ہے اور جہالت کے مترادف ہے۔ کسی بھی عقل و دانائی رکھنے والی قوم کو یہ عمل زیب نہیں دیتا کہ وہ رسومات کو مذہب کا درجہ دے اور بے جا کاموں میں اپنا وقت اور اپنی توانائیاں برباد کریں۔ رسم و رواج کو ایک مناسبت سے اختیار کرتے ہوئے اپنی زندگی گذارنی چاہئے


اقتباس ۲

تواریخ سے ثابت ہے کہ ایک قوم کسی قدر عرصے تک ترقی کی حالت پر رہتی ہے اور اس کے بعد ترقی مسدود ہو جاتی ہے۔ مگر یہ دیکھنا چاہئے کہ یہ ترقی کب مسدود ہوتی ہے۔ یہ اس وقت مسدود ہوتی ہے جب کہ اس قوم میں سے وہ قوت اٹھ جاتی ہے جس کے سبب سے نئی نئی باتیں پیدا ہوتی ہیں۔
تشریح

تشریح طلب عبارت میں مصنف منطق اور استدلال سے کام لیتے ہوئے امّتِ مسلمہ کی وجہ زوال کو بیان کر رہے ہیں۔ مصنف دنیا کی تواریخ کو ایک مضبوط دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ گزرے ہوئے ادوار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جس قوم نے بھی ترقی کی، وہ اُس عرصے تک قائم رکھی ہے جب تک اُس نے ایک متمدن اور مہذب معاشرہ قائم رکھا ہے۔ اس دور کے بعد اقوام آہستہ آہستہ پستی کے گڑھے میں گرجاتی ہیں اور اُن کی عوام سے نظم اور حکومت سے استحکام عار ہو جاتا ہے۔ مصنف تمام فہم و فراست اور عقل و دانش رکھنے والے اذہان کو مخاطب کرتے ہیں اور اُن کی سوچ اس جانب گامزن کرتے ہیں کہ کس وجہ سے یہ ترقی رکی؟ کیسے یہ رکاوٹیں کھڑی ہوئیں؟ اور کیوں کر اس قوم کا طریقہ کار تبدیل ہوا؟ وہ اپنے مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں کہ قوموں کی تنزلی کی ابتداءاس وقت شروع ہوتی ہے جب اِس قوم کے افراد رسم و رواج کی اندھی تقلید شروع کر دیتے ہیں اور بلا سوچے سمجھے ان اصول و ضوابط کو اپنی زندگیوں میں شامل کر لیتے ہیں۔ اخلاقی اقدار میں اِن قوانین کی شمولیت معاشرے پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتی ہے اور ذہین سے ذہین سوچیں ان رسومات کی نظر ہو جاتی ہیں۔ آخرکار ان انسانوں میں سے وہ مادہ اٹھ جاتا ہے جس کی بدولت تفکران کے دائرے وسیع ہوتے ہیں، فکر کی موجیں ابھرتی ہیں اور شعور کی کرنیں پھیلتی ہیں اور یہ معاشرہ تیز رفتار دنیا کے ہمقدم ہونے کے بجائے رسم و رواج کے منجھدار میں ہمیشہ کے لئے پھنس جاتا ہے۔ سر سید احمد خان کہتے ہیں کہ عہدِ حاضر میں ملّتِ اسلامیہ کا بالکل یہی حال ہے اور اُن کی شاہانہ حکومت کے زوال کی وجہ رسومات کی کورانہ پیروی ہے


اقتباس ۳

انسان کی زندگی کا منشاءیہ ہے کہ اُس کے تمام قویٰ اور جذبات نہایت روشن اور شگفتہ ہوں اور ان میں باہم نامناسبت اور تناقص واقع نہ ہو بلکہ سب کا مل کر ایک کامل اور نہایت متناسب مجموعہ ہو۔ مگر جس قوم میں پرانی رسم و رواج کی پابندی ہوتی ہے۔ یعنی ان رسموں پر نہ چلنے والا حقیر اور مطعون سمجھا جاتا ہے وہاں زندگی کا منشاء معدوم ہو جاتا ہے۔
تشریح

پیشِ نظر عبارت میں سر سید احمد خان رسم و رواج کے ایک اور نقصان کی طرف نشاندہی کرتے ہیں اور اپنی بات مضبوط کرتے ہیں کہ رسومات کی اندھیر نگری میں گڑھوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ وہ انسانی فطرت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان کامیاب و کامران اُس وقت ہوتا ہے اور زندگی کا مقصد صرف اس وقت حاصل کرتا ہے جب اُس کی شخصیت میں استحکام آجائے۔ استحکام سے مراد یہ ہے کہ زندگی کی تمام سرگرمیاں، تمام افعال، عبادات، اخلاقیات اور سماجیات ایک پختہ سوچ پر انحصار کریں اور اسی سوچ کو بنیاد بنا کر جانبِ منزل قدم بڑھائیں۔ ذہنی طور پر منتشر افراد کبھی بھی اپنی توانائیاں اور اپنا وقت صحیح طور پر استعمال نہیں کرتے اور جسم و روح کے اعضاءکی حق تلفی کرتے ہیں۔ ایک مکمل، مناسب اور پرسکون زندگی اور کردار کی تعمیر کے لئے ضروری ہے کہ ہر موضوعِ فکر میں مناسبت اختیار کی جائے اور اعتدال کا خاص خیال رکھا جائے۔ مصنف کہتے ہیں کہ میانہ روی کی راہ پر چلنا صرف اس وقت ممکن ہے جب کہ ہم اپنے آباﺅ اجداد کے غیرضروری قوانین و رواجات سے انحراف کریں اور اپنی توانائیاں صحیح مقاصد کے لئے وقف کریں۔ ایسے معاشرے میں جہاں رسومات کو بلا ضرورت اہمیت دی جاتی ہے وہاں ایک مستحکم کردار کی تعمیر ممکن نہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ان اصولوں پر عمل نہ کیا جائے اور اپنی سہولیت سے مطابقت رکھتے ہوئے زندگی گزاری جائے تو ہر طرف سے مخالفت کی آواز بلند ہوتی ہے اور حقارت اور ذلالت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان معاشروں میں عزت و معیار کا پیمانہ اس امر کو سمجھا جاتا ہے کہ کون کس حد تک ان رسومات کا پابند ہے۔ ایسے معاشرے میں زندگی کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے اور تمام افراد زمانے کی گہری دُھند میں ہمیشہ کے لئے گم ہو جاتے ہیں


اقتباس ۴

ان مشرقی یا ایشیائی قوموں میں بھی کسی زمانے میں قوت اور عقل اور جودتِ طبع اور مادہ ایجاد ضرور موجود ہو گا جس کی بدولت وہ باتیں ایجاد ہوئیں جو اب رسمیں ہیں۔ اس لئے کہ اُن کے بزرگ ماں کے پیٹ سے تربیت یافتہ اور حُسنِ معاشرت کے فنون سے واقف پیدا نہیں ہوئے تھے۔
تشریح

سر سید احمد خان تمام عاقل و فہیم افراد کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں اور ان کے سامنے یہ موضوع پیش کرتے ہیں کہ ہمیں ان باتوں کو عقل کے پیمانے پر پرکھنا چاہئے جن کی وجہ سے اصول و ضوابط ایجاد ہوئے اور زمانے کے ساتھ ساتھ ان میں ترمیم کرتے رہنا چاہئے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ عہدِ حاضر میں جو رسم و رواج عائد ہیں وہ اس وجہ سے ترتیب پائی ہیں کیونکہ معاشرے کے افراد میں گرد و نواح کے مطابق اپنے آپ کو ترتیب دینے کی صلاحیت موجود تھی اور انہوں نے ایسے قوائد و قوانین تشکیل دیے جس سے ان کو بھرپور فائدہ حاصل ہو۔ انہوں نے اپنے فوائد اور معاشرے کے رہن سہن کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اپنی تخلیقی قوتوں سے اس طرح کام لیا کہ اپنے حق میں بہتریں رسومات تشکیل دیں اور معاشرے کو اپنے اور اپنے فوائد کے طرز پر ڈھالا۔ سر سید کہتے ہیں کہ اس دور میں معاشرے کے افراد میں جو صلاحیتیں تھیں ان کو معاشرے کے لحاظ سے نکھار کر ہی رواجات قائم ہوئے۔ انہوں نے اپنی عقل وفہم سے کام لیا ، تب ہی وہ اس قابل ہوئے کہ کچھ تخلیق کریں۔ وہ کوئی آسمانی مخلوق نہیں تھے جو تمام علم لے کر اس دنیا میں اتری ہو اور نہ ان پر کوئی وحی نازل ہوتی تھی جس کو دیکھ کہ انہوں نے اصول بنائیے۔ مصنف کہتا ہے کہ ہم بھی ویسے ہی افراد ہیں، ہمیں چاہئے کہ ہم بھی اپنی عقل اور ذہنی قوتوں کو استعمال کریں اور اپنے دنیوی و اخروی فائدوں کے لحاظ سے
آئینِ جہانبانی تشکیل دیں
 
            *--------------------------------------*

Ashaar ki tashri اشعار کی تشریح

 Ashaar ki tashri 

اشعار کی تشریح

1st Year Urdu Notes (اردو)

  اشعار کی تشریح

خواجہ میر درد - غزل 1

حوالہ

پیشِ نظر شعر خواجہ میر درد کی غزل سے لیا گیا ہے۔
تعارفِ شاعر

خواجہ میر درد کو اردو شاعری میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ آپ کو اردو غزل گوئی کا پہلا صوفی شاعر کہا جاتا ہے۔ درد نے شاعری کے دامن میں تصوف کے پھول کہلائے اور غزل کی بنیاد عشقِ حقیقی پر رکھی۔ آپ کے اشعار سے فلسفہ ہمہ اوست و وحدت الوجود‘ بے ثباتیِ کائنات و حیات‘ فناوبقا‘ صبروتوکل اور جبروقدر کا رنگ جھلکتا ہے۔


شعر نمبر ۱

دنیا میں کون کون نہ یک بار ہو گیا
پر منہ اس طرف نہ کیا اس نے جو گیا
مرکزی خیال

اس شعر کے پسِ منظر میں درد لوگوں کو یہ نصیحت کررہے ہیں کہ یہ دنیا کوئی ایسا دلکش مقام نہیں جس سے کبھی نہ ختم ہونے والا تعلق قائم کیا جائے۔
تشریح

اس شعر میں شاعر اپنا صوفیانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہتاہے کہ جب سے یہ دنیا بنی ہے اس میں طرح طرح کے لوگ آئے اوراپنی زندگی گزار کر چلے گئے۔ایک مرتبہ اس دنیا سے لوٹ کر چلے جانے والا شخص کبھی لوٹ کر نہ آیا۔ شاہ و گدا‘ آقا و غلام کسی نے بھی اس دنیا میں لوٹنے کی آرزو نہ کی۔اس موضوع کو چھیڑتے ہوئے شاعر یہ حقیقت حال بیان کر رہا ہے کہ اگر دنیا کوئی جاذبِ نظر جگہ ہوتی تو لوگ اس میں آنے کی خواہش کرتے اور ہمیشہ ا س میں رہنے کی جستجو کرتے۔شاعر کہتا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دنیا ایک ناپسندیدہ مقام ہے۔ یہ کوئی امن و آشتی اورسکون کا گہوارہ نہیں کہ اس سے محبت کی جائے اوراس کی رنگینیوںمیںدل لگایا جائے۔ اس مرکز میں ہرکوئی مصیبت میں مبتلا رہتا ہے‘ کسی کوسکون اور چین میسر نہیں۔ یہ ایک کانٹوں کا بستر اور دکھوں کی آماجگاہ ہے۔ تمام خواہشات کے پورے ہونے کا مرکز صرف آخرت ہے جہاں کی زندگی ابدی ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی زندگی کا ہر فعل آخرت کے مطابق کریں اور دنیا کی دلچسپیوں سے بے رغبت رہیں
مماثل شعر

چھوٹ جاﺅں جو غمِ ہستی سے
بھول کر بھی نہ ادھر دیکھوں میں


شعرنمبر ۲

پھرتی ہے میری خاک صبا دربدر لئے
اے چشمِ اشکبار یہ کیا تجھ کو ہو گیا
مرکزی خیال

شاعر نے اپنی بربادی اور محرومی کے احساس کو ظاہر کیا ہے۔
تشریح

پیشِ نظر شعر میں شاعر نے اپنے شکستہ جذبات کی نمائندگی کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اِس دنیا میںعشق کی بدولت مجھے بہت آلام و مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور میں نے اپنے محبوب سے بچھڑ کر بہت تکالیف و صعوبتیںبرداشت کی ہیں۔ میں نہایت بے قراری کی حالت میں ہوں، میرا دل بہت مضطرب ہے اور میرے وجود پر سکتہ طاری رہتا ہے۔ میرا جسم ایسی آوارہ ریت کی مانند ہے جو ہوا کے رحم و کرم پر اِدھر سے اُدھر اُڑتی پھرتی ہے۔ محبوب سے جدائی کے بعد میرے اندر ایک ناقابلِ بیان خلاءپیدا ہو گیا ہے اور میں ایک نا گفتہ بہ کرب محسوس کر رہا ہوں۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب انسان کا دل بوجھل ہوتا ہے تو اُس کی آنکھ اُس کا ساتھ دیتی ہے اور اَشک بہا کر دل کا بوجھ ہلکا کر دیتی ہے۔ شاعر اپنی پُر نم آنکھ کو مخاطب کر کہ کہتا ہے اے میری چشمِ تصور تجھے کیا ہو گیا ہے، تو نے مجھ سے بے وفائی کیوں کی؟ تو میری بے سہارگی اور لاچارگی میں میرا سہارا بنتی تھی! تو نے بھی اہلِ سماج کی طرح میرا ساتھ دینے سے انکار کر دیا اور آنسو بہانا بندکر دیا۔ تیری اِس بے رُخی کی وجہ سے میں مظلوم تر ہوتا گیا اور میری حالت بہت غیر ہو گئی۔ میری محبت رسوا ہو گئی اور مری زندگی برباد ہو گئی۔ اِس شعر میں شاعر کی بے قراری حد سے زیادہ بڑھی ہوئی نظر آتی ہے
مماثل شعر

سوزِ دل حد سے سوا اشک افشانی نہ ہو
اُس سے پوچھو جس کا گھر جلتا ہو اور پانی نہ ہو


شعرنمبر ۳

طوفانِ نوح علیہ السلام نے تو ڈبوئی زمین فقط
میں ننگِ خلق ساری خدائی ڈبو گیا
مرکزی خیال

شاعر عاجزی اور انکساری کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ نہایت خطاکار اور گنہگار ہے۔
تشریح

اس شعر میں شاعر نے صنعت تلمیح استعمال کی ہے۔ شاعر طوفانِ نوح علیہ السلام کا تارییخی واقعہ یاد دلاتے ہوئے یہ منظر پیش کرتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے دور میں لوگ نہایت سرکش و نافرمان تھے۔ ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہو گیا اور ایک زبردست سمندری طوفان کی شکل میں ان پر عذاب نازل کیا۔ اس طوفان کے باعث اس قدر تباہی مچی کہ یہ کرہ ارض ڈوب گیا ۔شاعر کہتا ہے کہ میں اس سرکش قوم سے بھی بدتر ہوں۔ میں بہت گنہگار اور نافرمان ہوں۔ میرا رتبہ اللہ کے نزدیک اِس قدر کم ہے کہ پوری انسانیت میری وجہ سے شرمندہ ہے۔تمام انسانوں اس بات پر افسوس اور ندامت ہے کہ ان کے درمیان ایک نہایت گنہگار شخص موجود ہے۔ شاعر کا کہنا ہے کہ قوم نوح علیہ السلام کی خطاو نے تو صرف یہ دنیا ڈبوئی تھی‘ مجھ نافرمان کی وجہ سے تمام انسانیت ہی شرم سے ڈوب گئی ہے۔ اس شعر میں شاعر نے عاجزی اور انکساری سے کام لیا ہے۔ ان کا ایسا کہنا ان کی بڑائی کی بہت بڑی دلیل ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ جس ٹہنی پر جتنے شجر ہوتے ہیں وہ اتنی ہی جھکی ہوئی ہوتی ہے۔ شاعر کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ ہے
مماثل شعر

میں ہوں وہ ننگِ خلق کہ کہتی ہے مجھ کو خاک
اس کو بنا کر کیوں میری مٹی خراب کی


شعرنمبر ۴

واعظ کسے ڈراوے ہے یومِ حساب سے
گریہ میرا تو نامہ اعمال دھو گیا
مرکزی خیال

اللہ کے حضور عاجزی اور انکساری سے آہ وزاری کرنے والے شخص کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
تشریح

مندرجہ بالا شعر میں شاعروعظ کرنے والے کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے شیخ تم ہم کوکیوں قیامت اور روزِ حساب کا خوف دلاتے ہو ‘ تم ہم سے یہ کیوں کہتے ہو کہ اس دنیا میں اگر اچھے اعمال نہیں کریں گے تو روزِآخرت ہمیں سخت سزا ملے گی اور خوف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تم کو کیا خبر کہ ہم اپنے گناہوں اور خطاﺅں پر کس قدر نادم ہیں۔ ہم اللہ کے حضور رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔ ہم اپنی سرکشی اور نافرمانی پر اس قدر اشک بہاتے ہیں کہ ہمارا دامن بھیگ جاتا ہے ۔ ہماری آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے بہت پر امید ہیں اور ہمیں یہ یقین ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نے ہمارے گناہ معاف کر دیے ہوں گے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اللہ کو اشکِ ندامت بہت پسند ہے۔ ہمارا دل بھی یہ کہتا ہے کہ روزِ جزا و سزا اللہ ہم پر رحم فرمائے گا اور ہمیں دوزخ کی آگ سے بچائے گا
مماثل شعر

موتی سمجھ کر شانِ کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے


شعرنمبر ۵

پھولے گا اس زبان میں گلزارِ معرفت
یاں میں زمینِ شعر میں یہ تخم بو گیا
مرکزی خیال

خواجہ میر درد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دنیائے سخن میں انہوں نے تصوف کا آغاز کر دیا ہے جس کی وجہ سے علمِ معرفت اردو شاعری میں عام ہو جائے گا۔
تشریح

پیشِ نظر شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میںنے اردو شاعری میں ایسا اندازِ بیان اختیار کیا ہے جس سے لوگوںکے اذہان علمِ الٰہی سے روشناس ہو رہے ہیں۔ گویا میں نے اردو شاعری کی زمین میں معرفت کا بیج بو دیا ہے اور اب اس بیج کی بدولت خدا شناسی کی ابتداءہو گی۔ اردو شاعری میں بھی لو گ صوفیانہ اشعار کہیں گے اور یہ بیج ایک لہلہاتے گلشن کی صورت اختیار کر لے گا۔ اس شعر میں شاعر نے اپنی بات کو بڑی خوبصورتی سے واضح کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اردو شاعری کی دنیا اب تک صوفیانہ خیالات سے عاری تھی۔ انہوں نے اس گوشے کو بھی پُر کر دیا ہے۔ اب آنے والے شعراء ان کی اس سوچ کو آگے بڑھائیں گے اور اردو شاعری پاکیزگی اور رشدوہدایت کا ذریعہ بن جائے گی۔ درد کا یہ دعویٰ بالکل درست ثابت ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ تصوف اور معرفتِ الٰہی اردو شاعری کی ایک خصوصیت بن گئی
مماثل شعر

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا


شعرنمبر ۶

آیا نہ اعتدال پر ہرگز مزاجِ دہر
میں گرچہ گرم و سردِ زمانہ سمو گیا
مرکزی خیال

زمانے کے ظلم و جبر پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب بھی اہلِ سماج کا رویہ ہمارے ساتھ درست نہیں ہے۔
تشریح

پیشِ نظر شعر سے شاعر کے ذہن کی فصاحت و فلسفیانہ طرزِ فکر کا پتا چلتا ہے۔ شاعر تنقید و تنقیص سے کام لیتے ہوئے کہتا ہیں کہ زمانہ بہت انتہا پسند واقع ہوا ہے۔ زمانہ انسان کو بہت خوشیوں اور شادمانیوں سے نوازتا ہے۔ اُسے بہت سے خوبصورت لمحات دیتا ہے اور بہت لطیف اورنرم و ملائم نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ ساتھ ساتھ یہی زمانے انسان کو بہت سی تلخ حقیقتوں سے بھی روشناس کراتا ہے اوریہ تاریکیاں اُس کے وجود کا حصہ بن جاتی ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ میں نے زندگی اور معاشرے کے یہ دونوں رنگ دیکھے ہیں ۔ دنیا کا نشیب و فراز دیکھا ہے اور اچھائیوں اور برائیوں کا بہت قریب سے تجربہ کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جب انتہا اور ابتداء ملا دی جائے تو ایک درمیانی راہ نکل آتی ہے اور یہ میانہ روی کا راستہ ہی بہترین اور پسندیدہ راستہ ہوتا ہے۔ میں نے جب زمانے کے دکھ اور سکھ دونوں دیکھ لئے ہیں تو زمانے کا میرے ساتھ سلوک اور برتاﺅ اعتدال پر آجانا چاہئے تھا اور میرے معاملات سے شدت ختم ہو جانی چاہئے تھی۔ جبکہ معاملہ اس کے بر عکس ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس زندگی کو خوشیوں کے احساسات سے سجاﺅںلیکن یہ سماج، یہ معاشرہ اور یہ زمانہ اب بھی میرے وجوو پر بہت تند، سخت اور جفاکار ہے اور میری جذبات کی قدر نہیں کرتا
مماثل شعر

نہ ہنسنے دے نہ رونے دے نہ جینے دے نہ مرنے دے
اِسی کو اِصطلاحاً ہم زمانہ کہتے ہیں


شعرنمبر ۷

اے درد جس کی آنکھ کھلی اِس جہان میں
شبنم کی طرح جان کو وہ اپنی رو گیا
حوالہ

پیشِ نظر شعر خواجہ میر درد کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔
مرکزی خیال

دنیا کی رونقیں اور تمام معاملات انسان کی وجہ سے ہیں اور دنیا کو وجود انسان کے لئے ایک امتحان ہے۔
تشریح

پیشِ نظر شعر میں شاعر ایک خوبصورت حقیقت کو بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ شاعر نے صوفیانہ انداز میں انسانی زندگی کی تصویر کشی کی ہے۔ درد کہتے ہیں کہ دنیا میں جب کوئی آتا ہے تو اُس کی پیدائش پر بہت خوشیاںمنائی جاتی ہیں۔ مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں، شکرانے کے نوافل ادا کئے جاتے ہیں اور خاندان میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہی۔ آپ نے انسان کی اس دنیا میں آمد کو شبنم سے تشبیہ دی ہے۔ شبنم جب رات کو پھولوں پر پڑتی ہے تو درخت اور پتے چمک اٹھتے ہیں۔ گلشن میں ہر چہار سو اُجالا پھیل جاتا ہے اور پورا چمن مہک اٹھتا ہے۔ یہی حال انسان کا ہے۔ اس دنیا میں آمد کے ساتھ ہی وہ مسرت و شادمانیاں لے کر آتا ہے اور انسانوں کی بستی کو رنگین بنا دیتا ہے۔ لیکن جس طرح شبنم چند لمحوں کے لئے ہوتی ہے اور دھوپ کی سختی کا مقابلہ کرتے کرتے آخرکار فنا ہو جاتی ہے اسی طرح انسانی وجود بھی اس دنیا میں چند طویل لمحوں کا مہمان ہے۔ یہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کی مشکلوں اور پریشانیوں میں گھرجاتا ہے۔ معاشرے اور سماج کے ظلم و جبر برداشت کرتے کرتے اُس کی قوت زائل ہو جاتی ہے اور آخرکار وہ اِس زندگی سے ہار کر ہمیشہ کے لئے فنا ہوجاتا ہے۔ اپنی جان اُس کے اختیار میں نہیں رہتی اور وہ اُس کا تابع بن کر اِس دنیا کو خیرباد کہہ دیتا ہے
مماثل شعر

نہ تو زمین کے لئے نہ آسمان کے لئے

جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہان کے لئے

                                                          ------------------------------------




خواجہ میر درد غزل 2

                                                                          شعرنمبر ۱



ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے
مرکزی خیال

خواجہ میر درد اللہ تعالیٰ کی وحدت کا اقرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس وسیع و عریض کائنات میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور ہستی موجود نہیں ہے۔
تشریح

پیشِ نظر شعر میں شاعر اپنی کیفیت کی ترجمانی کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہیں کہ کون و مکان کی وسعتوں میں صرف ایک ہی ہستی جلوہ گر ہے اور صرف ایک ہی معبود کا نور پھیلا ہوا ہے۔ اگر ہم گنہگار انسانوں کے اذہان میں یہ خیال آتا ہے کہ اس کائنات میں خدائے بزرگ و برتر کے علاوہ بھی کوئی اور ہستی موجود ہے تو یہ سراسر غلط ہے اور شرک کی ابتداءہے۔ ارض و سما کا ہر ذرئہ جمال نورِ خداوندی کا مظہر ہے۔ اس کرئہ ارض میں موجود چمکتی نہریں‘ حسین و دلکش وادیاں‘ آفتاب و مہتاب‘ فلک وزمین ہر شے اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کا وجود نہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ جب اس پھیلی ہوئی کائنات میں ہر طرف اللہ تعالیٰ کا حسن موجود ہے تو ہمارے دل و ماغ اور سوچ و فکر میں بھی اسی کا خوف ہونا چائیے۔ ہمیںاپنے خالقِ حقیقی سے محبت کرنی چائیے‘ ہمارا ہر عمل اسی کے احکامات کے مطابق ہونا چاہیے‘ ہماری خواہشات‘ ہماری آرزویں‘ ہمارے افکار سب اللہ تعالیٰ کے امر و نہی کے پابند ہونے چاہئے۔ ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنی زندگیاں اللہ تعالیٰ کے دین کے مطابق بسر کریں اور دنیا و آخرت میں سرخرو ہو کر اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کریں
مماثل شعر

جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا


شعرنمبر ۲

دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے، آن میں کچھ ہے
مرکزی خیال

مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے دل کی کیفیات کا سہارا لیتے ہوئے بڑی خوبصورتی سے محبوب کی تلون مزاجی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
تشریح

اِس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ آج کل میرا دل کچھ عجیب سی کیفیت سے دوچار ہے۔ میرے دل میں ایک بے چینی اور بے قراری ہے۔ میرا دل فیض، سکون، نشاط اور راحت سے عاری ہے۔ ہر لمحہ میرے دل میں ایک نئی اضطرابی کیفیت جنم لیتی ہے اور میرا دل طرح طرح کے طریقوں سے مجھ پر ظلم کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے دل گرفتہ محبوب! میرا دل تیری محبت میں گرفتار ہے اس لئے اِس نے بھی تیرے ہی طور طریقے سیکھیں ہیں۔ اس کا رویہ آج کل ایسا ہے جیسا تیرا برتاﺅ ہے۔ شاعر کو اپنی محبوب کی رضا و مشیت بہت عزیز ہے۔ اس لئے وہ بڑی خوبصورتی سے اپنے محبوب کو اِس بات سے آگاہ کرتے ہیںکہ تیرا مزاج بھی ہر گھڑی بدلتا رہتا ہے اور یکساں نہیں رہتا۔ میرا دل بالکل تیرے برتاﺅ کی طرح ہے۔ کسی لمحہ تو ہم پر مہربان ہو جاتا ہے اور کسی لمحہ تو ہم کو امتحان میں ڈال دیتا ہے،کبھی بیگانگی کا مظاہرہ کرتا ہے تو کبھی یگانگت کا۔ غرض ہر نیا آنے والا لمحہ مجھے ایک نئے سلوک سی ہمکنار کراتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا یہ تم سے متاثر دل کبھی ایک حالت پر نہیں رہتا
مماثل اشعار

ایک حالت پر نہ رہنے پائیں دل کی حالتیں
تم نے جب دیکھا نئے انداز سے دیکھا مجھے

تیرے چہرے سے تلون تیرا کھل جاتا ہے
ہم نے اس پھول کو سو رنگ بدلتے دیکھا


شعرنمبر ۳

لے خبر تیغِ یار کہتی ہے
”باقی اس نیم جان میں کچھ ہے
مرکزی خیال

شاعر محبوب سے کہتے ہیں کہ تیرے ظلم و ستم کی وجہ سے میری حیاتِ ناپائیدار کاابھی تک خاتمہ نہیں ہوا ہے اِس لئے تو میری روح کو میرے جسم سے جدا کر دے۔
تشریح

مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے ایک سچے عاشق کے کردار کی ترجمانی کی ہے۔ شاعر کا محبوب جو اُس کے نہایت کرخت امتحان لیتا ہے شاعر کے ذہن میں یہ بات نقش کر جاتا ہے کہ اُس کا عاشق اُس پر شاید اس لئے ظلم و ستم کر رہا ہے کہ وہ مر جائے اور اُس کی موت کی وجہ سے محبوب کی روح کو تسکین پہنچ جائے۔ وہ مخاطب کرتا ہے کہ اے میرے ناراض محبوب تو نے ہم پر بہت ظلم و ستم کر لئے۔ تیرے مظالم و جبر ہم پر اِس حد تک ہیں کہ ہمارے اندر ہماری جان بھی باقی نہیں رہی۔ ہم نہایت ہی مظلوم اور بے کس ہو گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم کو تیری رضا اور خوشنودی مشروط ہے۔ ہم یہی چاہتے ہیں کہ ہم تیری توجہ کا مرکز بنے رہیں اور اسی حالت میں رخصت ہو جائیں۔ تو ہمارے قتل کا بہت شائق ہے اور شاید تو سمجھ رہا ہے کہ تیرے اِن سختیوں کی وجہ سے اب تک ہم تم سے جدا بھی ہو گئے ہوں گے۔ لیکن ہم تجھ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اب بھی ہم میں کچھ جان موجود ہے حالانکہ تیری خوشی اس میں ہے ہم بالکل فنا ہو جائیں۔ اس لئے ہماری آرزو ہے کہ تو ہمارے مزید امتحان لے کر ہماری اِس حیاتِ فانی کو بالکل ختم کردے۔ ہماری بھی آرزو پوری ہو جائے گی کہ مرتے وقت ہم کو صرف اور صرف تیرا دیدار نصیب ہوگا
مماثل شعر

تجھ کو برباد تو ہونا تھا مرے دل لیکن
ناز کر ناز کہ اُس نے مجھ کو برباد کیا


شعرنمبر ۴

اِن دنوں کچھ عجب ہے میرا حال
دیکھتا کچھ ہوں، دھیان میں کچھ ہے
مرکزی خیال

زیرِ تشریح شعر میں شاعر نے عشق کی والہانہ کیفیت کا ذکر کیا ہے۔
تشریح

مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے عشق کی کیفیت کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جذبہ عشق ایک ایسا جذبہ ہے جس کی شدت کا یہ عالم ہے کہ دل و دماغ پر محبوب کا تصور چھایا رہتا ہے۔ محبوب چاہے اُس کے نزدیک ہو یا نہ ہو، اُس کے پاس آئے یا نہ آئے، اُس سے کوئی بندھن رکھے یا نہ رکھے، اُس کی عزت و عقیدت کرے یا نہ کرے، وہ ہمیشہ اُس کی ذات میں بسا رہتا ہے۔ ہر لمحے محبوب کی یاد اُسے ستاتی رہتی ہے۔ بظاہر وہ اس دنیا کے معاملات میں مگن نظر آتا ہے لیکن در حقیقت وہ اپنے ہم عصروں کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے۔ اُسے ہر چیز میں اپنا محبوب نظر آتا ہے، ہر آواز اپنے چاہنے والے کی معلوم ہوتی ہے اور ہر آہٹ محبوب کی سنائی دیتی ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
بیٹھے بیٹھے اپنے خیالوں میں گُم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں
شاعر کہتا ہے کہ اگر یہ جذبہ کسی کے دل میں موجود ہو تو وہ ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اُس کا دل و دماغ بے خودی کے عالم میں چلا جاتا ہے اور کائنات کی ہر شے اُسے محبوب کی یاد دلاتی ہے۔ ہر لمحہ اُس کے ذہن میں اپنے چاہنے والے کی خوشبو مہکتی رہتی ہے اور وہ خوبصورت یادوں کو دہرا کر ایک نشے میں مست ہو جاتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ آج کل ہم بھی اسی قسم کی کیفیت سے دوچار ہیں اور ہم پر بھی ہر وقت کسی کا سایہ رہتا ہے۔ درد کا یہ شعر سہلِ ممتنع کی بہترین مثال ہے
مماثل شعر

گفتگو کسی سے ہو دھیان تیرا رہتا ہے
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا


شعرنمبر ۵

اور بھی چاہئے سو کہئے اگر
دلِ نا مہربان میں کچھ ہے
مرکزی خیال

شاعر اپنے محبوب سے خود کو برا بھلا کہنے کی دعوت اِس امید پر دے رہا ہے کہ شاید اِس نامہربان دِل میں مہربانی کے جذبات پیدا ہو جائیں۔
تشریح

پیشِ نظر شعر میں شاعر خندہ پیشانی اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے محبوب کے طعنے، سرد مہری اور ظلم و ستم برداشت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے میرے محبوب ! ہم تیرے سچے عاشق ہیں۔ ہم تیری توجہ ہر حال میں حاصل کرنا چاہتے ہیں چاہے اس کے لئے ہمیں ہر قسم کے طعنے اور کلمات سننے پڑیں۔ ہمیں اگر تیری زبان سے دل شکنی کی باتیں بھی سننی پڑیں تو بھی ہم نہایت خوش دلی سے اُن کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اگر تو ہمارے محبوب کی طرح ہم پر توجہ نہیں دے سکتا تو ہم کو یہی منظور ہے کہ تو ہم پر غصہ ہو اور ہم سے ناراضگی کا اظہار کرے۔ اِس لئے ہماری درخواست ہے کہ اگر تمھارے دل میں اور بھی کچھ ہے تو بلا تکلف کہو اور یہ مت سمجھنا کہ ہم برداشت نہیں کر سکیں گے۔ ہم بڑی خوشنودی اور رضا سے اس کا استقبال کریں گے اور تجھ پر بالکل ناراض نہ ہوں گے۔
شاعر اپنے محبوب کو اس اُمید پر دعوت دے رہے ہیں کہ شاید اُن کا محبوب غصے کے اظہار ہے بعد اپنے رویے پر خود ہی شرمندہ ہو جائے اور اُس کا دل مہربان ہو جائے۔ اِس طرح شاعر کو اپنے محبوب کی قربت حاصل ہو جائے گی
مماثل شعر

لاگ ہو اُس کو تو ہم سمجھیں لگاﺅ
جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا


شعر نمبر ۶

درد تو جو کرے ہے جی کا زیاں
فائدہ اس زیان میں کچھ ہے
تشریح

شاعر اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے درد تم جو ہر وقت اپنے ستم پیشہ اور تغافل پسند محبوب کے عشق میں خود کو گھلاتے رہتے ہو، اذیتیں اٹھاتے ہو اور اس طرح اپنے دل کا نقصان کرتے ہو، اس نقصان میں آخر تم کیا فائدہ دیکھتے ہو؟ ظاہر ہے کہ جس چیز کو تقصان قرار دیا جائے اس کے ساتھ کسی قسم کے فائدے کا کیا تصور وابستہ کیا جا سکتا ہے؟ کیونکہ نقصان اور فائدہ دونوں کبھی بھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ اے درد تمھیں یہ عشق کا جھنجھٹ چھوڑ دینا چاہئے اور اپنے فائدے کی بات
Send a message via Skype™ to Tanha Karim
Default Re: Ashaar ki tashri اشعار کی تشریح

خواجہ میر درد غزل 2

شعرنمبر ۱

ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے
مرکزی خیال

خواجہ میر درد اللہ تعالیٰ کی وحدت کا اقرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس وسیع و عریض کائنات میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور ہستی موجود نہیں ہے۔
تشریح

پیشِ نظر شعر میں شاعر اپنی کیفیت کی ترجمانی کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہیں کہ کون و مکان کی وسعتوں میں صرف ایک ہی ہستی جلوہ گر ہے اور صرف ایک ہی معبود کا نور پھیلا ہوا ہے۔ اگر ہم گنہگار انسانوں کے اذہان میں یہ خیال آتا ہے کہ اس کائنات میں خدائے بزرگ و برتر کے علاوہ بھی کوئی اور ہستی موجود ہے تو یہ سراسر غلط ہے اور شرک کی ابتداءہے۔ ارض و سما کا ہر ذرئہ جمال نورِ خداوندی کا مظہر ہے۔ اس کرئہ ارض میں موجود چمکتی نہریں‘ حسین و دلکش وادیاں‘ آفتاب و مہتاب‘ فلک وزمین ہر شے اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کا وجود نہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ جب اس پھیلی ہوئی کائنات میں ہر طرف اللہ تعالیٰ کا حسن موجود ہے تو ہمارے دل و ماغ اور سوچ و فکر میں بھی اسی کا خوف ہونا چائیے۔ ہمیںاپنے خالقِ حقیقی سے محبت کرنی چائیے‘ ہمارا ہر عمل اسی کے احکامات کے مطابق ہونا چاہیے‘ ہماری خواہشات‘ ہماری آرزویں‘ ہمارے افکار سب اللہ تعالیٰ کے امر و نہی کے پابند ہونے چاہئے۔ ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنی زندگیاں اللہ تعالیٰ کے دین کے مطابق بسر کریں اور دنیا و آخرت میں سرخرو ہو کر اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کریں
مماثل شعر

جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا


شعرنمبر ۲

دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے، آن میں کچھ ہے
مرکزی خیال

مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے دل کی کیفیات کا سہارا لیتے ہوئے بڑی خوبصورتی سے محبوب کی تلون مزاجی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
تشریح

اِس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ آج کل میرا دل کچھ عجیب سی کیفیت سے دوچار ہے۔ میرے دل میں ایک بے چینی اور بے قراری ہے۔ میرا دل فیض، سکون، نشاط اور راحت سے عاری ہے۔ ہر لمحہ میرے دل میں ایک نئی اضطرابی کیفیت جنم لیتی ہے اور میرا دل طرح طرح کے طریقوں سے مجھ پر ظلم کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے دل گرفتہ محبوب! میرا دل تیری محبت میں گرفتار ہے اس لئے اِس نے بھی تیرے ہی طور طریقے سیکھیں ہیں۔ اس کا رویہ آج کل ایسا ہے جیسا تیرا برتاﺅ ہے۔ شاعر کو اپنی محبوب کی رضا و مشیت بہت عزیز ہے۔ اس لئے وہ بڑی خوبصورتی سے اپنے محبوب کو اِس بات سے آگاہ کرتے ہیںکہ تیرا مزاج بھی ہر گھڑی بدلتا رہتا ہے اور یکساں نہیں رہتا۔ میرا دل بالکل تیرے برتاﺅ کی طرح ہے۔ کسی لمحہ تو ہم پر مہربان ہو جاتا ہے اور کسی لمحہ تو ہم کو امتحان میں ڈال دیتا ہے،کبھی بیگانگی کا مظاہرہ کرتا ہے تو کبھی یگانگت کا۔ غرض ہر نیا آنے والا لمحہ مجھے ایک نئے سلوک سی ہمکنار کراتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا یہ تم سے متاثر دل کبھی ایک حالت پر نہیں رہتا
مماثل اشعار

ایک حالت پر نہ رہنے پائیں دل کی حالتیں
تم نے جب دیکھا نئے انداز سے دیکھا مجھے

تیرے چہرے سے تلون تیرا کھل جاتا ہے
ہم نے اس پھول کو سو رنگ بدلتے دیکھا


شعرنمبر ۳

لے خبر تیغِ یار کہتی ہے
”باقی اس نیم جان میں کچھ ہے
مرکزی خیال

شاعر محبوب سے کہتے ہیں کہ تیرے ظلم و ستم کی وجہ سے میری حیاتِ ناپائیدار کاابھی تک خاتمہ نہیں ہوا ہے اِس لئے تو میری روح کو میرے جسم سے جدا کر دے۔
تشریح

مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے ایک سچے عاشق کے کردار کی ترجمانی کی ہے۔ شاعر کا محبوب جو اُس کے نہایت کرخت امتحان لیتا ہے شاعر کے ذہن میں یہ بات نقش کر جاتا ہے کہ اُس کا عاشق اُس پر شاید اس لئے ظلم و ستم کر رہا ہے کہ وہ مر جائے اور اُس کی موت کی وجہ سے محبوب کی روح کو تسکین پہنچ جائے۔ وہ مخاطب کرتا ہے کہ اے میرے ناراض محبوب تو نے ہم پر بہت ظلم و ستم کر لئے۔ تیرے مظالم و جبر ہم پر اِس حد تک ہیں کہ ہمارے اندر ہماری جان بھی باقی نہیں رہی۔ ہم نہایت ہی مظلوم اور بے کس ہو گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم کو تیری رضا اور خوشنودی مشروط ہے۔ ہم یہی چاہتے ہیں کہ ہم تیری توجہ کا مرکز بنے رہیں اور اسی حالت میں رخصت ہو جائیں۔ تو ہمارے قتل کا بہت شائق ہے اور شاید تو سمجھ رہا ہے کہ تیرے اِن سختیوں کی وجہ سے اب تک ہم تم سے جدا بھی ہو گئے ہوں گے۔ لیکن ہم تجھ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اب بھی ہم میں کچھ جان موجود ہے حالانکہ تیری خوشی اس میں ہے ہم بالکل فنا ہو جائیں۔ اس لئے ہماری آرزو ہے کہ تو ہمارے مزید امتحان لے کر ہماری اِس حیاتِ فانی کو بالکل ختم کردے۔ ہماری بھی آرزو پوری ہو جائے گی کہ مرتے وقت ہم کو صرف اور صرف تیرا دیدار نصیب ہوگا
مماثل شعر

تجھ کو برباد تو ہونا تھا مرے دل لیکن
ناز کر ناز کہ اُس نے مجھ کو برباد کیا


شعرنمبر ۴

اِن دنوں کچھ عجب ہے میرا حال
دیکھتا کچھ ہوں، دھیان میں کچھ ہے
مرکزی خیال

زیرِ تشریح شعر میں شاعر نے عشق کی والہانہ کیفیت کا ذکر کیا ہے۔
تشریح

مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے عشق کی کیفیت کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جذبہ عشق ایک ایسا جذبہ ہے جس کی شدت کا یہ عالم ہے کہ دل و دماغ پر محبوب کا تصور چھایا رہتا ہے۔ محبوب چاہے اُس کے نزدیک ہو یا نہ ہو، اُس کے پاس آئے یا نہ آئے، اُس سے کوئی بندھن رکھے یا نہ رکھے، اُس کی عزت و عقیدت کرے یا نہ کرے، وہ ہمیشہ اُس کی ذات میں بسا رہتا ہے۔ ہر لمحے محبوب کی یاد اُسے ستاتی رہتی ہے۔ بظاہر وہ اس دنیا کے معاملات میں مگن نظر آتا ہے لیکن در حقیقت وہ اپنے ہم عصروں کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے۔ اُسے ہر چیز میں اپنا محبوب نظر آتا ہے، ہر آواز اپنے چاہنے والے کی معلوم ہوتی ہے اور ہر آہٹ محبوب کی سنائی دیتی ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
بیٹھے بیٹھے اپنے خیالوں میں گُم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں
شاعر کہتا ہے کہ اگر یہ جذبہ کسی کے دل میں موجود ہو تو وہ ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اُس کا دل و دماغ بے خودی کے عالم میں چلا جاتا ہے اور کائنات کی ہر شے اُسے محبوب کی یاد دلاتی ہے۔ ہر لمحہ اُس کے ذہن میں اپنے چاہنے والے کی خوشبو مہکتی رہتی ہے اور وہ خوبصورت یادوں کو دہرا کر ایک نشے میں مست ہو جاتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ آج کل ہم بھی اسی قسم کی کیفیت سے دوچار ہیں اور ہم پر بھی ہر وقت کسی کا سایہ رہتا ہے۔ درد کا یہ شعر سہلِ ممتنع کی بہترین مثال ہے
مماثل شعر

گفتگو کسی سے ہو دھیان تیرا رہتا ہے
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا


شعرنمبر ۵

اور بھی چاہئے سو کہئے اگر
دلِ نا مہربان میں کچھ ہے
مرکزی خیال

شاعر اپنے محبوب سے خود کو برا بھلا کہنے کی دعوت اِس امید پر دے رہا ہے کہ شاید اِس نامہربان دِل میں مہربانی کے جذبات پیدا ہو جائیں۔
تشریح

پیشِ نظر شعر میں شاعر خندہ پیشانی اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے محبوب کے طعنے، سرد مہری اور ظلم و ستم برداشت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے میرے محبوب ! ہم تیرے سچے عاشق ہیں۔ ہم تیری توجہ ہر حال میں حاصل کرنا چاہتے ہیں چاہے اس کے لئے ہمیں ہر قسم کے طعنے اور کلمات سننے پڑیں۔ ہمیں اگر تیری زبان سے دل شکنی کی باتیں بھی سننی پڑیں تو بھی ہم نہایت خوش دلی سے اُن کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اگر تو ہمارے محبوب کی طرح ہم پر توجہ نہیں دے سکتا تو ہم کو یہی منظور ہے کہ تو ہم پر غصہ ہو اور ہم سے ناراضگی کا اظہار کرے۔ اِس لئے ہماری درخواست ہے کہ اگر تمھارے دل میں اور بھی کچھ ہے تو بلا تکلف کہو اور یہ مت سمجھنا کہ ہم برداشت نہیں کر سکیں گے۔ ہم بڑی خوشنودی اور رضا سے اس کا استقبال کریں گے اور تجھ پر بالکل ناراض نہ ہوں گے۔
شاعر اپنے محبوب کو اس اُمید پر دعوت دے رہے ہیں کہ شاید اُن کا محبوب غصے کے اظہار ہے بعد اپنے رویے پر خود ہی شرمندہ ہو جائے اور اُس کا دل مہربان ہو جائے۔ اِس طرح شاعر کو اپنے محبوب کی قربت حاصل ہو جائے گی
مماثل شعر

لاگ ہو اُس کو تو ہم سمجھیں لگاﺅ
جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا


شعر نمبر ۶

درد تو جو کرے ہے جی کا زیاں
فائدہ اس زیان میں کچھ ہے
تشریح

شاعر اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے درد تم جو ہر وقت اپنے ستم پیشہ اور تغافل پسند محبوب کے عشق میں خود کو گھلاتے رہتے ہو، اذیتیں اٹھاتے ہو اور اس طرح اپنے دل کا نقصان کرتے ہو، اس نقصان میں آخر تم کیا فائدہ دیکھتے ہو؟ ظاہر ہے کہ جس چیز کو تقصان قرار دیا جائے اس کے ساتھ کسی قسم کے فائدے کا کیا تصور وابستہ کیا جا سکتا ہے؟ کیونکہ نقصان اور فائدہ دونوں کبھی بھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ اے درد تمھیں یہ عشق کا جھنجھٹ چھوڑ دینا چاہئے اور اپنے فائدے کی بات
سوچنی چاہئے
 
                               --------------------------

 
  میر تقی میر غزل 1
                                             
                               حوالہ
 
 
مندرجہ بالا شعر میر تقی میر کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔
تعارفِ شاعر

میر تقی میر آسمانِ سخن کے درخشاں آفتاب ہیں۔ ان کو اردو غزل گوئی میں خدائے سخن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ انسانی احساسات و جذبات کی مکمل ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کے اشعار پاکیزگی‘ دلکشی‘ ترنم اور دردمندی کا مجموعہ ہیں۔ وہ اپنے فن میںیکتائے زمانہ ہیں۔ بقول غالب
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا


شعرنمبر ۱

اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘ کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
مرکزی خیال

عشق ایک نہ ختم ہونے والی بیماری ہے جو انسان کو موت کے دہانے پر پہنچا دیتی ہے۔
تشریح

مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے عجیب بے کسی کے ساتھ اپنی داستانِ حیات کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہم کو ایک نہایت سنگین مرض لاحق ہو گیا۔ زندگی گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مرض بڑھتا گیا اور اس کی آثار ظاہر ہونے لگے۔ ہم نے اس مرض کے علاج کے لئے طرح طرح کی تدبیریں کی اور مختلف دواﺅں سے علاج کیا‘ ہر طرح سے جتن کر ڈالے۔ لیکن عشق کوئی ایسا مرض نہیں ہے کہ اس کا علاج ہو جائے۔ جوں جوں ہم اس کا علاج کرتے رہے اس کی سنگینی بڑھتی گئی‘ دوائیں بے اثر ہو گئیں اور تمام تدبیریں الٹی ہو گئیں۔ پھر وہ وقت آ گیا کہ یہ بیماری نا قابلِ برداشت ہو گئی اور اس کی وجہ سے ہم موت کے دہانے پر پہنچ گئے۔ اس روگ نے ہم سے ہماری زندگی چھین لی اور مرضِ دل کی بدولت ہم اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مصرعہ ثانی میں لفظ ’دیکھا‘ ایک ڈرامائی کیفیت پیدا کر رہا ہے۔ اس سے پتا لگتا ہے شاعر کو یہ اندیشہ پہلے ہی سے تھا۔ وہ اس اندیشہِ جان کا ذکرمحبوب سے پہلے بھی کر چکے تھے۔ اب یقین کے ساتھ محبوب کو جتاتے ہیں کہ دیکھا ! اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
مماثل شعر

مریضِ عشق پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی


شعرنمبر ۲

عہدِ جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے، صبح ہوئی آرام کیا
مرکزی خیال

پیشِ نظر شعر میں شاعر اپنی دُکھ بھری داستانِ حیات بیان کر رہے ہیں۔
تشریح

زیرِ تشریح شعر میں شاعر نے اپنی حسرت و یاس بھری زندگی کی کہانی بیان کی ہے۔ جوانی کا دور حیاتِ انسانی کا سنہرہ دور ہوتا ہے۔ یہ امنگوں، آرزوﺅں، خوابوں اور دلکشی و رانائی کی نرم و ملائم جہت ہوتی ہے۔ اِس میں انسان آزاد پنچھی کی مانند عزم و ہمت اور بے فکری کی فضاﺅں میں اُڑتا ہے۔ اِس عہدمیں انسان کے پاس توانائیاں ہوتی ہیں اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے قوتیں ہوتی ہیں۔ شاعر کہتا کہ میں اتنا بد نصیب انسان ہوں کہ یہ سنہرا دور بھی آلام و مصائب کی نذرہو گیا اور میں اس دور کی لطافتوں اور قوتوں سے بچھڑ گیا۔ میں نے یہ دور بھی نہایت دکھ درد اور بے چینی کے عالم میں اشک بہاتے ہوئے گزارا ہے۔ اب جب میں عمر کے آخری حصے میں پہنچ گیا ہوں تو میرے پاس اتنی ہمت و امید نہیں ہے کہ میں اپنے بھیانک ماضی کی وحشتیں دیکھ سکوں۔ میں اِس قدر ناتواں اور بے جان ہو گیا ہوں کہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ میری زندگی ایک ایسے شخص کی مانند ہے جس کی آنکھیں خمار آلود اورجسم بوجھل صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ رات بھر کسی فکر میں جاگتا رہا ہے۔ اب اُس میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ دن اور طلوعِ آفتاب کے مناظر دیکھے۔ اسی لئے وہ خوابیدہ ہو جاتا ہے
مماثل شعر

دن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی
پھیلا کے پاﺅں سوئیں گے کنجِ مزار میں


شعرنمبر ۳

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تُہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں‘ ہم کو عبث بدنام کیا
مرکزی خیال

اس شعر میں شاعر اپنی زندگی کی بے کسی اور مجبوری بیان کر رہا ہے۔
تشریح

مندرجہ بالا شعر میں شاعر اپنی مجبوری اور بے کسی کی منظر کشی کر رہا ہے۔ شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تم ہم سے یہ کیوں کہتے ہو کہ ہم اپنے فیصلوں اور ارادوں میں بااختیار ہیں اور ہر فعل اپنی مرضی اور خوشنودی سے سر انجام دیتے ہیں‘ ہماری زندگی کے لمحات ہمارے اپنے ہیں اور اس کا دارومدار ہمارے ذہن اور ہمارے ارادوں پر ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ ہم تو بے کس اور مجبور ہیں۔ ہم تو وہی کرتے ہیں جو تم ہم سے کہتے ہو‘ ہمارے تمام اعمال تو تمہاری خواہشات کے مطابق ہیں‘ ہماری عشق کی انتہا یہ ہے کہ ہم نے اپنی مرضی بالکل ختم کر دی ہے اور ہر کام کرتے ہوئے اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ تمہاری کیا مرضی ہے‘ تم کس طرح رضامند ہو گے اور ہمیں اپنے چاہنے والوں میں جگہ دو گے۔ اس کے باوجود اگر تم ہمیں اپنے ارادوں میں خود مختار کہتے ہو تو یہ ہم کو بے وجہ بدنام کرنے والی بات ہے اور یہ محض ایک الزام ہے۔
اس شعر کو ہم حقیقی اور مجازی دونوں معنوں میں لے سکتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں شاعر نے صوفیائے کرام کا نظریہِ جبر پیش کیا ہے جس کے مطابق انسان اس دنیا میں ایک کٹھ پتلی ہے جو کاتبِ تقدیر کا پابند ہے۔ محبوب کی خوشنودی یا نظریہِ جبر دونوں حوالوں سے انسان ایک ایسی مجبورمخلوق ہے جسے اپنی زندگی پر کسی طرح کا اختیار نہیں ہے۔ اس شعر میں صنعت تضاد پائی جاتی ہے
مماثل شعر

زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی سزا پائی ہے یاد نہیں


شعرنمبر ۴

سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی دور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا
مرکزی خیال

محبوب کی دلی عقیدت و عزت کا بھرپور اظہار کیا ہے۔
تشریح

شاعر کہتا ہے کہ ہمیں اپنے محبوب سے اس قدر لگاﺅہے اور ہم اس کی اتنی عزت کرتے ہیں کہ نیم بےہوشی اور مستی کی حالت میں بھی اس کی بے ادبی نہیں کر سکتے اور ہر حال میں اس کا احترام کرتے ہیں۔ چاہے ہم جتنے بھی ہوش و حواس سے عاری ہوں ہم اپنے رفیق کی عزت کرتے ہیں۔ چاہے ہم اس کے نزدیک ہوں یا اس سے کوسوں دور ہوں وہ ہماری عزت و احترام کا مستحق رہتا ہے۔ کبھی اگر ہم نہایت بے خودی کی حالت میں زبان سے کلمات نکال رہے ہوں تب بھی ہمارے ذہن میں یہ بات نقش ہوتی ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں سے بڑھ کر ہمارا محبوب لائقِ احترام ہے۔ اس شعر میں جس کیفیت کا تذکرہ کیا گیا ہے وو عشق کی معراج ہے


شعرنمبر ۵

یاں کے سپیدوسیاہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا
مرکزی خیال

شاعر اپنی زندگی کی بے بسی، لاچاری اورمجبوری بیان کر رہا ہے۔
تشریح

شاعر کہتا ہے کہ میں ایک بے اختیار اور بے بس انسان ہوں۔ میری بے چارگی کی حد یہ ہے کہ میں اپنی زندگی کے تمام تر معاملات میں مجبور ہوںاور میری مرضی کوئی اور تشکیل دیتا ہے۔ اس بے کس زندگی کے کسی بھی معاملے میں میرا دخل نہیں ہے اور میں سب کچھ اپنی مرضی کے خلاف کرتا ہوں۔ میری اختیارہے تو صرف اِس حد تک کہ میں دن کو بے قراری میں گزار دیتا ہوں اور رات کو چند آنسو بہا کر صبح دیکھ لیتا ہوں۔ میری زندگی ایک ایسے پنچھی کی مانند ہے جو پنجرے سے آزاد فضا میں اُڑنا چاہتا ہو لیکن ہر کوشش اُس کے لئے تکلیف کا سبب بنتی ہو۔ میں اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گزارنا چاہتا ہوں۔ میں اس میں فیض، سکون، راحت اور نشاط کے موتی چمکانا چاہتا ہوں لیکن کہیں بھی میری مرضی نہیں چلتی۔ میرے مقدر میں یہ نہیں لکھا کہ میں اپنے حالات تبدیل کر سکوں اور اپنی سوچوں کی بے چینی تبدیل کر سکوں ۔ میں اپنی ذات پر جتنا اختیار رکھتا ہوں اُسی کو استعمال کرتا ہوں - رات بھر بے قراری میں آنسو بہا کر وقت گزار لیتا ہوں اور دن میں مصیبتیں جھیل کر اپنی روح کو تسکین پہنچا لیتا ہوں۔ میں چاہتا ہوںکہ میری اِس دنیا میں ناکامی و نامرادی کا کوئی صحرا نہ ہو لیکن یہ سماج اور معاشرہ میری خواہشات کا احترام نہیں کرتا ۔ میں جبرِ فطرت کو پیروکار بنا ہوا ہوں اور یہ دردوالم بھری زندگی لاچاری اور مجبوری میں بسر کر رہا ہوں
مماثل شعر

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا


شعر نمبر ۶

ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی
سحر کیا، اعجاز کیا، جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا
مرکزی خیال

اس شعر میں میر اپنے محبوب کی اُن سے بیزاری کا تذکرہ کر رہا ہے۔
تشریح

محبوب کی فطرت میں کرم کے بجائے بے رخی اور بے نیازی ہوتی ہے۔ وہ اپنے عاشق پر کبھی نظر عنایت نہیں کرتا۔ اگر کبھی التفات کرتا بھی ہے تو رقیب پر اس لئے نہیں کہ اسے رقیب سے محبت ہے بلکہ اس لئے کہ وہ اپنے عاشق کو مزید تکلیف پہنچائے۔ یہاں شاعر نے محبوب کو آہوئے رم خوردہ سے استفادہ کیا ہے جس طرح ہرن انسان کو دیکھ کر چوکڑیاں بھرتا ہوا اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح جب ہماری نظر محبوب سے ملتی ہے تو وہ ہم سے فوراً ہی نظریں چرا کر گزر جانا چاہتا ہے۔ اس کی ہم سے بیزارگی کا یہ عالم ہے کہ وہ ہمیں دیکھتے ہی کترا کر گزر جاتا ہے۔ اور ہمیں اتنا عکس بھی نہیں دیتا کہ ہم اس کا حسین عکس اپنی آنکھوں میں سمو سکیں۔ جبکہ وہ ہمارے رقیب پر نظر و التفات کی بارشیں کرتا ہے اور ہم یہ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ اس وحشت زدہ ہرنی پر ہمارے سامنے ایک لمحہ بھی ٹھیرنے کو تیار نہیں۔ وہ ہماری لاکھ کوشش کے باوجود ہم سے مانوس نہیں۔
میر اپنے رقیبوں کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ واقعی وہ باکمال لوگ ہیں جنہوں نے تجھ کو اپنا اسیر بنا لیا اور ہمیں تو اظہارِ محبت کا سلیقہ تک نہ آیا۔ ہمارا محبوب راستے کے پتھر کی طرح ہمیں ٹھوکر مارتا ہوا گزر جاتا ہے اور ہر بار ہمارے دل کو ایک نیا
زغم دے جاتا ہے
                         --------------------------


میر تقی میر غزل 2
 
 شعر نمبر ۱

ہمارے آگے جب ترا کسو نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
مرکزی خیال

میر فرماتے ہیں کہ جب ہم تیرا نام کسی سے سنتے ہیں تو ہمارا دل بری طرح بے چین، مضطرب اور تڑپنے لگتا ہے۔ اور ہمیں بار بار دل کو سنبھالنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اہلِ عشق کے لئے محبوب کو بھلانا ممکن نہیں۔
تشریح

میر تقی میر زیرِ نظر شعر میں عشق کی بے چینی کا نذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محبت میں محبوب کی ذات سے ایک عجیب تعلق اور لگاﺅ پیدا ہو جاتا ہے اور عاشق اس کا نام سنتے ہی بے تاب ہو جات اہے۔ میر اپنے محبوب کے بارے میں کہتے ہیں کہ تیری نام کے ساتھ جو احساسِ بے وفائی کا غم ہے، تیرا تصور اضطراب کن ہے۔ اب اگرچہ ہمارا تجھ سے کوئی واسطہ نہیں مگر جب بھی کوئی ہمارے سامنے تیرا نام لیتا ہے تو ہمیں ماضی مےن تجھ سے تعلق اور تیرے ظلم و ستم سبھی کچھ یاد آ جاتے ہیں اور ہمارا دل اس قدر تڑپتا ہے کہ جیسا سینے سے باہر آ جائے گا اور اس لمحے ہم اپنے آپ کو سنبھالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں


شعرنمبر ۲

قسم جو کھائیے تو طالعِ زُلیخا کی
عزیزِ مصر کا بھی صاحب ایک غلام لیا
مرکزی خیال

شاعر زلیخا کی خوش قسمتی بیان کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ اس کی خوش نصیبی کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔
تشریح

مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے حُسنِ تلمیح سے کام لیتے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام کے مشہور واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نہایت حسین و جمیل تھے۔ آپ سے حسد کی وجہ سے آپ کے بھائی آپ کو جنگل میں ایک کنویں میں پھینک آتے ہیں ۔ وہاں سے گزرنے والا ایک قافلہ آپ کو کنویں سے نکال کر غلام بنا لیتا ہے اور مصر کے بازاروں میں خرید و فروخت کے لئے لے جاتا ہیں۔ وہاں کا ایک عزیز اُس غلام کو اپنی بیوی زلیخا کے لئے خرید لیتا ہے تاکہ گھر کے کام کاج میں اُس کی مدد کرے۔ زلیخا جو ایک قابلِ مذمت کردار کی مالکہ تھی حضرت یوسف علیہ السلام میں دلچسپی لینے لگتی ہے اور اُنہیںدعوتِ گناہ قبول نہ کرنے کے جرم میںجیل میں قید کروا دیتی ہے۔ جب یہ مسئلہ عزیزِ مصر کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے پاکیزہ کردار سے بہت متاثر ہوتا ہے اور اُنہیں اپنے منصب پر فائز کر دیتا ہے۔
شاعر اس واقعہ کی روشنی میں زُلیخا کی قسمت کوقابلِ رشک اور بلند کہہ رہا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ زُلیخا وہ خوش قسمت عورت ہے جس کے گھر آنے والا ایک غلام بادشاہت کے بلند ترین منصب پر فائز ہو جاتا ہے اور زلیخا کو ہمیشہ کے لئے اُن کی قربت حاصل ہو جاتی ہے۔ زلیخا کے نصیب سے متاثر ہو کر شاعر کہتا کہ محبوب کا حصول ہی سب سے اچھی قسمت ہے۔ اس لئے اگر قسم کھانی ہو تو ہمیں عزیزِ مصر کی بیوی کی کھانی چاہئے جس کے بخت کی بدولت اُسے حضرت یوسف علیہ السلام جیسے جمیل انسان کا حصول ہوا
مماثل شعر

کیا خوش بختی ہے زلیخا کی کیا زور ہے اُس کی قسمت کا
کل اُس نے خریدا تھا جس کو وہ آج ہے شامل شاہوں میں


شعر نمبر ۳

خراب رہتے تھے مسجد کے آگے میخانے
نگاہِ مست نے ساقی کا انتقام لیا
مرکزی خیال

اس شعر میں میر اپنے محبوب کے حسن کی سحر انگیزی بیان کر رہے ہیں۔
تشریح

اس شعر میں میر نے اپنے محبوب کو ساقی سے تشبیہ دی ہے کہ جب لوگ مفتی تھے تو مسجدیں آباد ہوا کرتی تھیں اور مے خانے ویران۔ مسجدوں کی رونق دیکھ کر ساقی جلتا تھا۔ اس نے بناﺅ سنگھار کر کے اپنی مخمور آنکھوں کی طرف لوگوں کی توجہ دلائی تو لوگ مے خانوں کا رخ کرنے لگے۔ بقول شاعر
لوگ بڑھ بڑھ کر جام پیتے رہے
اور ہم ساقی کی آنکھوں کا مزہ لیتے رہے
میر فرماتے ہیں کہ بالکل اسی طرح ہمارے محبوب نے بھی لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے بناﺅ سنگھار کیا اور لوگوں پر اپنے حسن کی بجلیاں گرائیں۔ نتیجتاً اس کے سحر انگیز حسن اور نشیلی آنکھوں کا جام پینے والے لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ عابد تک رند بن گئے، مساجد ویران ہونے لگیں اور سست نگاہوں کی لٹیروں سے کوئی بھی اپنا دامن نہ بچا سکا۔ ہمارے محبوب کی نگاہوں کا جام پینے والا کبھی ہوش کا دعویٰ نہیں کر سکتا


شعر نمبر ۴

وہ کج روش نہ ملا راستی میں مجھ سے کبھی
نہ سیدھی طرح سے اُن نے مرا سلام لیا
مرکزی خیال

اس شعر میں میر اپنے محبوب کے طرزِ تغافل کا تزکرہ کر رہے ہیں۔
تشریح

شاعر کہتا ہے کہ اے مرے محبوب! میں تری محبت میں ایک زخمی پرندے کی طرح پھڑ پھڑا رہا ہوں لیکن تجھ کو رحم و محبت کا واسطہ نہیں۔ تو نے بڑی بے رحمی سے میرے تڑپنے کا منظر دیکھا اور اب تو میں فراق کی صعوبتیں سہہ سہہ کر نڈھال ہو چکا ہوں۔ تیری ان جفا کاریوں کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم تیری جدائی کا ناسور لئے اس جہانِ فانی سے کوچ کر جائیں گے اور تیرے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں ہو گا۔ اور لوگ تجھے ہماری موت کا سبب جانیں گے


شعر نمبر ۵

مزا دکھاویں گے بے رحمی کا تیری صّیاد
گر اضطرابِ اسیری نے زیرِ دام لیا
مرکزی خیال

مظلوم ایک حد تک ظلم و ستم برداشت کرتا ہے۔ اِس کے بعد وہ اپنے افعال ، حرکات و سکنات سے ظالم کے لئے پریشانی کا سبب بن جاتا ہے۔
تشریح

شاعر نے اس شعر میں تمثیلی اندازِ بیان اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو ایک مظلوم اور بے کس پرندہ ظاہرکیا ہے جوشکاری کی قید میں ظلم و جبر کا نشانہ بن رہا ہے۔ شاعر اپنے محبوب سے ہمکلام ہو کر کہتا ہے کہ ہم تیری محبت کے پنجرے میں قید ہیں اور تو ہم پر مسلسل ستم ڈھا رہا ہے۔ وہ مخاطب کرتا ہے کہ اے صّیاد! تو نے ہم پر بہت ستم کر لئے اور ہم کو بہت جبر کا نشانہ بنا لیا۔ تو ایک بے رحم اور بے حس شخص ہے جو ہم پر نہایت بے دردی سے اپنے حربے آزما رہا ہے۔ شاید تجھ کو اس بات کا احساس نہیں کہ اگر ہماری مظلومیت اور تیرے تکلیف دہ افعال برداشت کی حد پار کر گئے تو ہم تجھ کو تیری اِن ظالمانہ حرکتوں کو خوب مزہ چکھائیں گے اور تجھ سے اپنی بے کسی کا بدلہ لیں گے۔ اگرچہ ہم قید ہیں لیکن ہم کو صیاد سے بدلہ لینا آتا ہے۔ ہم خود ہی اپنے جسم سے روح کو علیحدٰہ کر دیں گے اور تجھ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بے چینی، بے قراری اور اضطراب کے بھنور میں پھنسا جائیں گے۔ تو ہم کو یاد کر کر کے اپنے دل کو تڑپائے گا اور تاموت خلش اور اذیت سے دوچار رہے گا۔ اِس لئے ہم کہتے ہیں کہ ہم پر ظلم و ستم اتنا کر جتنا تو برداشت کر سکیں ورنہ اِس کا انجام دونوں کے حق میں بہت برا ہو گا۔
اس شعر میں شاعر نے ایک خوبصورت حقیقت بیان کی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ محبوب جب اپنے چاہنے والے کا بہت کرخت اور مشکل امتحان لیتا ہے تو وہ امتحان میں کامیاب نہیں ہوتا اور محبوب سے دور ہو جاتا ہے۔آخر کار محبوب اس کی یاد میں ہمیشہ بے قرار اور مضطرب رہتا ہے
مماثل شعر

حد سے زیادہ جور و ستم خوش نما نہیں
ایسا سلوک کر جو تدارک پذیر ہو


شعر نمبر ۶

مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
تشریح

عشق میں رنج و غم، حسرت و یاس، ناکامیوں اور محرومیوں سے سابقہ رہتا ہے۔ عاشق ابتداءمیں صبر و ضبط سے کام لیتا ہے لیکن بالاخر صبر و تحمل کھو بیٹھتا ہے، دیوانہ ہو جاتا ہے، شائستگی جاتی رہتی ہے، ایسی حرکتیں کرنے لگتا ہے جس سے محبوب بدنام ہو جائے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں نے اس کے بر عکس بڑے سلیقے اور شائستگی سے عاشقی میں زندگی بسر کر دی۔ محبوب کے ظلم و ستم کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ اس راہ کی ناکامیوں اور محرومیوں سے واسطہ رہا مگر اس کا اظہار نہیں ہونے دیااور نہایت شائستہ اور مہذب انداز مےں زندگی گزار دی کہ نہ تو محبت بدنام ہوئی نہ ترکِ محبت کا خیال دامن گیر ہوا


شعر نمبر ۷

اگرچہ گوشہ گُزیں ہوں میں شاعروں میں میر
پہ میرے شور نے روئے زمیں تمام لیا
تشریح

ہر انسان فطرتاً شہرت پسند واقع ہوا ہے۔ اس میں اپنے آپ کو نمایاں کرنے کا جزبہ ضرور ہوتا ہے لیکن بعض لوگوں کی طبعتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو مواقع بھی میسر ہوتے ہیںلیکن اس کے بعد بھی وہ شہرت کو پسند نہیں کرتے اور خاموشی سے زندگی گزار دیتے ہیں۔ میر صاحب کہتے ہیں کہ عام شعراءکے برعکس شہرت کا خواہاں نہیں بلکہ گوشہ نشینی میں رہنے والا انسان ہوں۔ اپنے آپ کو نمایاں نہیں کرتا لیکن کیا کروں کہ میرے اشعار نے مجھے ایسی شہرت دی جو دوسروں کو نصیب نہ ہوئی۔ میں نے اپنے اشعار میں رنج و الم کا اظہار اس شدت سے کیا ہے کہ ہر سننے والا متاثر ہوتا ہے اور میری طرف متوجہ بھی۔ میرے دکھی دل کی پکار روئے زمیں پر
پھیل گئی اور یہی میری شہرت کا باعث ہوئی ، ورنہ میں تو گوشہ نشین انسان تھا
 
                                         -----------------------------------------------


خواجہ حیدر علی آتش غزل 1


حوالہ

پیشِ نظر شعر خواجہ حیدر علی آتش کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔
تعارفِ شاعر

خواجہ حیدر علی آتشاردو غزل گوئی کے وہ اہم ترین شاعر ہیں جن کی بدولت دبستانِ لکھنو کا آغاز ہوا۔ آتش کا تصوف سے عملی رشتہ تھا جس کا عکس اُن کے کلام میں بھی نظر آتا ہے۔ آپ کے کلام میں مرصع سازی جا بجا ملتی ہے اور خارجی کیفیات سے ہٹ کر حسنِ فکر بھی نمایاں ہے۔ خواجہ حیدر علی آتش کے اشعارمنتخب ہیں اور اُن کے کلام میں زبان و بیان کی کشش ہے۔ بقول ڈاکٹر ابواللّیث صدیقی:
زبان اور محاوروں کا لطف اٹھانا ہو تو آتش کے کلام کو پڑھنا چاہئے۔


شعرنمبر ۱

یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبلِ بیتاب گفتگو کرتے
مرکزی خیال

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کی قصیدہ خوانی کر رہا ہے اور اس کے حسن و جمال کی برتری بیان کر رہا ہے۔
تشریح

شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ہم کو تمہارے حسن اور اپنی محبت پر ناز ہے۔ ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ تم اس کائنات کی حسین ترین شے ہو۔ وہ کہتا ہے کہ اس دنیا کی سب سے خوبصورت شے گلاب کے پھول کو سمجھا جاتا ہے جس کی عاشق بلبل ہے۔ اگر ہم کو موقع ملتا تو ہم حسن کا مقابلہ کرواتے جس میں ایک طرف تم اور دوسری طرف گلاب ہوتا۔ گلاب کے پھول سے عشق کرنے والی بلبل ہے جو اس کی محبت میں نہایت بے چین اور مضطرب رہتی ہے اور اس کے گرد چکر لگاتی رہتی ہے جبکہ تمھارے چاہنے والے ہم ہیں۔ ہم بلبل سے ہمکلام ہو کر اس دنیا پر یہ ثابت کر دیتے کہ تمہارا حسن گلاب سے بھی بڑھ کر ہے اور اس پھول کی تمہارے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بلبل کو یہ بات تسلیم کرنی پڑتی کہ حسن و نزاکت میں ہمارا محبوب اُس کے محبوب پر فوقیت رکھتا ہے۔ ہمارا عاشق حسن و دلکشی کا مرقع‘ نزاکت و لطافت کا مجموعہ اور مسرت کن خوشبوﺅں کا خاصہ ہے جس کا مقابلہ کسی طرح بھی اِس بے وقعت پھول سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس شعر میں شاعر نے مبالغے کی صفت استعمال کی ہے
مماثل شعر

ہوئی گل پر فدا نادان بلبل
کہاں گل اور کہاں وہ غیرتِ گل


شعر نمبر ۲

پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
مرکزی خیال

شاعر کہتے ہیں کہ محبوب کے سامنے اپنی آرزﺅں اور خواہشآت کا اظہار خود کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ قاصد محبوب کے احساسات اور کیفیات کی صحیح ترجمانی نہیں کر سکتا۔
تشریح

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ مجھے دردِ دل سنانے کے لئے کوئی پیغام بر نہیں ملا، نامہ �¿ التفات لے جانے کے لئے قاصد نہ ملا تو بہترین ہوا۔ اے میرے محبوب ہم کسی غیر کے ہاتھ سے تجھے کیا بھےجتے اگرچہ کہ اس سے دل کا بوجھ تو ہلکا ہو جاتا جو کہ اب تک میرے سامنے اظہار کے لئے بے چین تھا مگر اس طرح میری دلی کیفیات اور احساسات کی صحیح ترجمانی نہ ہو سکتی۔
اصل میں شاعر کسی قاصد کی تلاش میں سرگرداں تھا تاکہ محبوب تک اپنے دل کا حال پہنچا سکے لیکن اسے اس وقت شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب اسے کوئی شخص ایسا نہ ملا جو کہ اس کے جزبات و احساسات کی تفصیل محبوب تک پہنچائے تو اس وقت عاشق نے اپنے آپ کو اس طرح تسلی دی کہ چلو اچھا ہوا کہ قاصد نہ ملا۔ کیونکہ محبوب کے آگے کسی غیر سے اپنی آرزﺅں اور تمناﺅں کو پیش کرنا اچھا معلوم نہیں ہوتا


شعر ۳

مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
مرکزی خیال

محبت و عشق کی حکمرانی اس پوری کائنات پر قائم ہے اور عشق کے بغیر اس زندگی کا مفہوم ادھورا ہے۔
تشریح

شاعر کہتا ہے کہ یہ چاند و سورج و سیارے ہر وقت گردش کرتے رہتے ہیں۔ انہیں ایک حالت میں سکون اور اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ لگتا ہے یہ بھی میری طرح کسی سچے اور حقیقی محبوب کی تلاش میں ہیں۔ میری حالت بھی کچھ اس طرح کی ہے کہ میں ہر وقت بے قرار و مضطرب رہتا ہوں۔ مجھے بھی ایک عاشقِ حقیقی کی تلاش ہے اور میں اس کے لئے جستجو کرتا رہتا ہوں۔ ان کیفیات کے ذریعے شاعر یہ حقیقت بیان کررہا ہے کہ محبت ایک ایسا پاکیزہ جذبہ ہے جس کے بغیر یہ کائنات ادھوری ہے اور جس کو ہٹا کر اس حیاتِ فانی کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے


شعر نمبر ۴

جو دیکھتے تری زنجیرِ زُلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد، آرزو کرتے
مرکزی خیال

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کا تمام حسن اس کی زلفوں کو قرار دے رہا ہے۔
تشریح

اس شعر میں شاعر کہہ رہے ہیں کہ جو لوگ پابندی سلاسل سے گھبراتے ہیں اور زنجیر کی چھنک سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ اگر وہ تیری زلفوں کی زنجیر کا لطف جانتے تو وہ یقیناً اس بات کی آرزو کرتے کہ کاش وہ زلفوں کی زنجیروں میں اُلجھ کر قید ہو جائیں۔ انہیں آزادی سے یہ پابندی پسند آتی۔
شاعر فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب! تو بڑا ہی حسین ہے، تیری زلف سیاہ اور دراز ہے۔ جب تو کبھی اپنے گیسوﺅں کو چوٹی کی شکل میں گوندھ لیتا ہے اور وہ زنجیر کی شکل اختیار کڑ لیتے ہیں تو اس وقت تو اور بھی زیادہ حسین دکھائی دینے لگیا ہے۔ ایسے میں عام لوگ اگر تجھے دیکھ لیں تو تیرے حسن و جمال کو دیکھ کر سب تیری محبت میں مبتلا ہو جائیں اور خواہش کریں کہ کاش تو انہیں بھی اپنی زنجیرِ زلف میں اسیر کر لے


شعر نمبر ۵

نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے
تشریح

بد نصیبی عاشق کا مقدر ہوتی ہے۔ بدنصیبی تو یہ ہے کہ کوئی خواہش اور آرزو پوری نہ ہو لیکن عاشقی میں یہ بھی ہوتا ہے کہ آرزو خواہشات کے برعکس ہو۔ یہ بد نصیبی کی انتہا ہے۔ شاعر کہتا ہے میرے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ میری بد نصیبی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ حال یہ ہے کہ میں جو آرزو کرتا ہوں، جو دعا کرتا ہوں اس کے برعکس کام ہوتا ہے۔ اگر مےن گرمی کی شدت کے سبب بارش کی دعا کروں تو بجائے بارش کے آگ برسنے لگے یعنی اور زیادہ گرمی بڑھ جائے۔ مطلب یہ ہے کہ میرا مقدر اس قدر برگشتہ ہو گیا ہے کہ میں جو چاہتا ہوں ہمیشہ اس کا الٹا ہی ہوتا ہے
مماثل شعر

مانگا کریں گے اب سے دعا ہجر کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ

                                        ----------------------------------------------




خواجہ حیدر علی آتش غزل 2



شعر نمبر ۱

ہوائے دور مئے خوش گوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی، بہار راہ میں ہے
مرکزی خیال

اس شعر میں آتش امید نو کا ایک اچھوتا سا انداز لئے ہوئے لوگوں کو نویدِ سحر کی خبر سنا رہے ہیں۔
تشریح

آتش نے رومانی اشعار کے علاوہ حالات کے پیشِ نظر بڑے امید افزاءاشعار بھی کہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلسل ناکامیوں سے گھبراتے دلوں کو ناامید ہونا کفر ہے۔ سارے مصائب کی رات کٹ جاتی ہے اور خوشیوں کا دروازہ خود بخود کھل جاتا ہے۔ خزاں دم توڑ رہی ہے اور بہار کی آمد آمد ہے۔ تیرگی کے دن کٹ گئے ہیں۔ وہ لوگوں کو امید افزاء کی نوید سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ مصائب کے دن ہمیشہ نہ رہیں گے بلکہ بہارےں ہمارے قدم چومیں گی۔ کیونکہ خوشگوار ہوائیں موسمِ بہار کی آمد کا پتہ دے رہی ہیں۔ اب ہر طرف تازگی اور عیش و عشرت کا زمانہ آنے والا ہے


شعر۲

عَدَم کے کُوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں
نہ کوئی شہر، نہ کوئی دیار راہ میں ہے
مرکزی خیال

پیشِ نظر شعرمیں شاعر تمام ذی شعور انسانوں کو سفرِآخرت کی تیاری کی تلقین کر رہا ہے۔
تشریح

زیرِ تشریح شعر میں شاعر نے دین کی روشنی میں فلسفہ زندگانی بیان کیا ہے۔ شاعر کے نزدیک ہر انسان کو اصل و ابدی منزل کی جانب روانگی کے لئے تیاری کرنی چاہئے اور اِس زندگی میں لمحات کی قدر کرتے ہوئے ہر لمحے حصولِ آخرت کی فکرمیں مگن رہنا چاہئے۔ انسان کی زندگی مطلقِ کل کی رضا و مشّیت سے مشروط ہے۔ پُرسکون دائمی زندگی کو حاصل کرنے کے لئے یہ لازم ہے کہ انسان اپنی رضا کی مداخلت نہ کرے اور اِس زندگی کو اِس طرح بسر کرے کہ اُس کے ہر عمل سے فکرِ آخرت ظاہر ہو۔ یہ زندگی انسانی وجود سے کچھ قربانی مانگتی ہے۔ وہ قربانی صرف اتنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جاری و ساری نظامِ قدرت سے مطابقت رکھتے ہوئے اپنے ہر فعل کو تشکیل دے۔ کیونکہ موت مطلقِ کُل کی مرضی سے آتی ہے۔ جب زندگی کسی وجود کو اپنے رحم اور اپنی ہمدردی سے محروم کر دیتی ہے تو اُسے موت کی آغوش میں لے جاتی ہے۔ موت اور زندگی کے درمیان کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ یہی موت ہمیں اِس زندگی کا احترام سکھاتی ہے۔ اِس لئے ہم پر لازم ہے اِس چند روزہ زندگی کوغنیمت جانیں اور آخرت کے سفر کی تیاری اِس بھرپور طریقے سے کریں کہ دورانِ سفر کسی قسم کی دشواری پیش نہ آئے۔ ایک مرتبہ اِس سفر پر روانہ ہونے والے وجود کے لئے واپسی کے تمام دریچے بند ہو جاتے ہیں۔ پھر اُسے اپنی نامکمل تیاری کو مکمل کرنے کا کوئی موقع نہیں ملتا
مماثل شعر

آخرت میں اعمال نیک ہی کام آئیں گے
پیش ہے تجھ کو سفر، زادِ سفر پیدا کر


شعر نمبر ۳

سمندِ عمر کو اللہ رے شوقِ آسائش
عناں گستہ و بے اختیار راہ میں ہے
مرکزی خیال

شاعر کہتا ہے انسانی زندگی خواہشات سے پُر ہے اور عیش اس کی فطرت میں ہے۔
تشریح

آتش فرماتے ہیں کہ زندگی بے حد مختصر ہے، بڑی تیز رفتار ہے اور پلک جھپکتے میں گزر جاتی ہے۔ آدمی دنیا کی آسائشوں، راحتوں اور رعناﺅں کسے بھرپور طور پر لطف اندوز نہیں ہو پاتا۔ کیونکہ وہ وقت کی تیز رفتاری کے ہاتھوں مجبور ہے۔ کسی کا وقت پر کوئی اختیار نہیں اور وہ ایک بے لگام گھوڑے کی مانند ہے۔ وہ حال، مستقبل سے بے پرواہ دوڑتا ہی چلا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ وقت تیز رفتاری سے گزرتا چلا جائے اور آدمی کو اس دنیا میں کچھ کرنے کا زیادہ موقع نہیں دے گا۔ اسی لئے چاہئے کہ جتناوقت ملے اسے غنیمت جان کر آئندہ پیش آنے والے سفر کے لئے تیار رہے۔ لیکن انسان اسبابِ جہالت کو بڑھاتا ہی رہتا ہے۔ حالانکہ اس کو جس سفر پر روانہ ہونا ہے وہاں وہ تمام ضروریات سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور سامان تو کیا وہ ہر چیز لے جانے کے سلسلے میں بے اختیارہے
مماثل شعر

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا، پل کی خبر نہیں


شعر نمبر ۴

نہ بدرقہ ہے، نہ کوئی رفیق ساتھ اپنے
فقط عنایتِ پروردگار راہ میں ہے
مرکزی خیال

اس شعر میں آتش سفر آخرت کو خطرات سے معمور قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس سفر کو وہی آسانی سے پار کر سکے گا جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔
تشریح

شاعر کہتا ہے کہ نہ کوئی شجر سایہ دار ، نہ کوئی ابر کا ٹکڑا، نہ کوئی ساتھی اور دوست ہے صرف اللہ کا سہارا ہے۔ اگر اس کی رحمت کی نظر ہو جائے تو نزع سے قبر اور قبر سے لے کر میدانِ حشر تک معاملہ آسان ہے اور کوئی مددگار اور ساتھی نہیں ہے۔ وہ آل و اولاد، مال و دولت، جن کو ہم رفیقِ جہاں سمجھتے ہیں وہ سب ختم ہو گئے صرف اللہ کی رحمت سے بیڑہ پار ہے۔ سفرِآخرت ایک ایسا سفر ہے جس کو تنہا آدمی کو خود طے کرنا ہے، کوئی اس کے ساتھ محافظ نہیں ہوتا، نہ کوئی دوست ساتھ ہوتا ہے کہ وہ آسانی سے کٹ جائے۔ اس سفر کو آسان کرنے کی صورت خدا کی عنایت اور مہربانی ہے جو کہ صرف اُسی صورت مل سکے گی جب کہ ہم اُس کے احکامات کی پیروی کر کے اُسے خوش رکھیں


شعر۵

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہیں
مرکزی خیال

آتش عزم و ہمت کا درس دیتے ہوئے یہ خیال پیش کر رہے ہیں کہ منزل کے حصول کے لئے سفر کا آغاز ہی اہم ترین ہے۔
تشریح

پیشِ نظر شعر میں شاعر تمام انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے اُن کی ہمت اور حوصلہ بلندکر رہے ہیں۔ شاعر کہتا کے کسی بھی مشکل سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ہم کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ دورانِ سفر ہم کن کن مصائب و آلام کے مدِ مقابل کھڑے ہوں گے؟ اور کیا ہم اپنی منزل اور مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ اِس طرح کے خیالات اگر ذہن میں آ جائیں تو انسان آغاز ہی میں مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنا ارادہ ترک کر دیتا ہے۔ شاعر انسانوں کو اس بات کی ترغیب دے رہا ہے کہ ہمیں ذاتِ مطلق پر توکل و بھروسہ رکھتے ہوئے اور اُس ایک ذات سے امید لگا کر جانب منزل سفر کا آغاز کر دینا چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان جب کسی کام کا ارادہ کر لیتا ہے اور اُس کا آغاز کر دیتا ہے تو خود بخود اُس کے لئے راہیں ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ آخر کار اپنی منزل کو پا لیتا ہے۔سفر کے دوران اُسے ہزاروں وفادار ہم سفر مل جاتے ہیں اور اُس کی ہر ممکن طریقوں سے مدد کرتے ہیں۔ انسان کے لئے ایسے بہت سے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں جس کی بدولت وہ تمام مشکلات و مصائب کا مقابلہ کرتا ہوا اپنی منزل پر فتح و کامیابی کا جھنڈا گاڑھ دیتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم بغیر کسی خوف و پریشانی کے اپنی منزل کی جانب سفر کا آغاز کر دیں اور خدائے بزرگ و برتر پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے تمام رکاوٹوں کا ادراک کریں۔ انشاءاللہ کامیابی ہمارا مقدر بنے گی
مماثل شعر

اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے


شعر نمبر ۶

مقام تک بھی ہم اپنے پہنچ ہی جائیں گے
خدا تو دوست ہے، دشمن ہزار راہ میں ہیں
مرکزی خیال

شاعر اس شعر میں سبق دے رہا ہے کہ اگر منزل کی سچی لگن دل میں موجود ہو تو مصائب کے طوفان بھی ہمیں منزل تک پہنچنے سے نہیں روک سکتا۔
تشریح

شاعر کہتا ہے کہ ہمرِ مرداں اور خدا کی عنایت و مہربانی اگر ہو تو کامیابی یقینی ہو جاتی ہے۔ چاہے راہ میں سیکڑوں دشمن اور راہ زن، مصائب و آلام ہمیں گھیر لیں۔ مگر ہمیں اللہ کی ذات پر کامل بھروسہ ہے تو وہ ہماری دستگیری کرے گا، نگہبانی فرمائے گا اور دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ یہاں پر انسان کام نہیں آئیں گے بلکہ صرف اللہ کی رحمت کا سایہ ہم پر ہو گا تو ہم اپنا مقصد پا لیں گے۔


شعر نمبر ۷

تھکیں جو پاﺅں تو چل سر کے بل نہ ٹھیر آتش
گُلِ مراد ہے منزل میں، خار راہ میں ہے
تشریح

اس شعر میں مزید اسی مضمون کے شاعر نے تشریح کی ہے۔ کہتا ہے کہ جب سفر کا آغاز کر دیا، خدا کی عنایات و نوازشات پر نظر جمائے رکھی تو راہ کی دشوارویوں سے ڈرنا، گھبرانا کیا؟ اگر چلتے چلتے پاﺅں تھک جائیں تو رک جانا یا ٹہرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ تمام دشواریان اور تکالیف تو راستے ہی میں ہوتی ہےں۔ منزل پر پہنچ کر تو آرام و سکون میسر آجاتا ہے۔ اس لئے ہر ممکن کوشش کے کرے راستے کو جلد از جلد طے کر لینا چاہئے۔ تھک کر بیٹھ رہنے سے دشواریاں کم نہیں ہوں گی۔ مطلب یہ کہ حصولِ مقصد میں دشواریوں کا سامنا یقینی ہے کیونکہ بغیر دشواریوں کے منزلِ مقصود نہیں ملتی
 
                                             -----------------------------------------------------    
 
 
 
 
 
 
 

مرزا اسد اللہ خان غالب غزل 1


حوالہ

مندرجہ بالا شعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔
تعارفِ شاعر

مرزا اسد اللہ خان غالب گلشنِ سخن کے ایک ایسے حسین گلاب ہیں جس کی مہک آج تک اردو غزل گوئی کو معطر کرتی آرہی ہے۔ غالب کا فن رسوم کی حدود وقیود سے بالاتر ہے جو اردو شاعری کے اعلیٰ ترین معیار کی ترجمانی کرتا ہے۔ان کے کلام میں ہر رنگ کا موضوع ملتا ہے۔ انہوں نے نہایت انوکھے مضامین شگفتہ اور مو�¿ثر انداز میں بیان کئے۔ اُن کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے رشید احمد صدیقی بیان کرتے ہیں۔
دورِ مغلیہ نے ہندوستان کو تین چیزیں عطا کی ہیں- اردو زبان‘ تاج محل اور مرزا اسد اللہ خان غالب۔


شعر نمبر ۱

کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
مرکزی خیال

اس شعر میں غالب اپنے حالات سے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔
تشریح

زیرِ نظر شعر غالب کے کلام کا ایک حصہ ہے۔ آپ اس میں کہتے ہیں کہ ہماری زندگی کا بحر کبھی پُر سکون نہیں رہا بلکہ اس میں ہر لمحہ کوئی نہ کوئی مقناطیسی لہر طوفان برپا کر دیتی ہے۔ غمِ دوراں نے ہماری زندگی اجیرن کر دی ہے۔ ہماری کوئی دعا کوئی تمنا پوری نہیں ہوتی۔ ہماری امید میں صرف خواب ہیں جن کی کوئی تعبیر نہیں۔ ہماری زندگی ایک غار تیرہ کی مانند ہے جس میں روشنی کر کرن کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ ہمیں اس تاریکی میں اپنی سانسیں ڈوبتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن ہمیں اس اندھیرے سے نکالنے والا کوئی نہیں اور کوئی مشعل نہیں۔ یہ زندگی ایک پرخار راہ ہے اور ہمیں یہ کٹھن راہ کسی منزل تک جاتی ہوئی نظر نہیں آتی۔
اصل میں شاعر یہاں پر بتانا چاہ رہے ہیں کہ انسان کی زندگی خواہشآت اور آرزوﺅں سے معمور ہے اور نامرادی عشق کا مقدر ہے۔ غالب اب عشق کی اُس منزل تک پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ لیکن تمنائے عشق کی تکمیل کی صورت بھی نظر نہیں آتی۔ اُمیدیں دم توڑ دیتی ہیں۔ جینے کی ہر راہ مفقود ہو چکی ہے۔ لیکن حصولِ محبوب ناممکن ہو گیا ہے یعنی عشق میں ہم ناکام اور محروم تمنا ہو کر رہ گئے ہیں
مماثل شعر

کوئی اُمید بر آئی نہ ارمان نکلا
زندگی بھر کسی کنجوس کا داماں نکلا


شعر ۲

موت کا ایک دن معین ہے
پھر نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
مرکزی خیال

اس شعر میں شاعر نے انسانی فطرت کی ایک کمزوری کا تذکرہ کیا ہے کہ انسان موت سے خوف زدہ رہتا ہے۔
تشریح

پیشِ نظر شعر میں شاعر نے یہ حقیقتِ حال بیان کی ہے کہ موت اٹل ہے اور ہر انسان کو آنی ہے۔ ہر انسان ایک نہ ایک دن قبر کی گود میں سلادیا جائے گا۔ شاعر کہتا ہے کہ جب انسان کو پتہ ہے کہ اس کی موت کا وقت مقرر ہے اور وہ ایک دن ایک مقررہ وقت پر ہی اس زندگی سے محروم کیا جائے گا تو وہ کس چیز کا خوف کھاتا ہے۔ اسے کیوں اس زندگی سے اتنا پیار ہے اور وہ کیوں موت سے بھاگتا ہے اور اس فکر میں پریشان ہوتا کہ کہیں ابھی اس کی زندگی ختم نہ ہو جائے۔ شاعر کہتا ہے کہ جب کسی حقیقت پر پختہ یقین ہو ہائے تواسے تسلیم کرکے اپنی باقی مصروفیات پر عمل کرنا چاہئے بجائے اس کے کہ اس اٹل حقیقت جو کہ ناقابلِ ترمیم ہے کو بدلنے کی فکر کی جائے۔ اس شعر میں انسانی فطرت کی کمزوری بیان کی گئی ہے


شعر نمبر ۳

آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
مرکزی خیال

اس شعر میں غالب اپنے دل کے مرجھانے کا تذکرہ کر رہے ہیں۔
تشریح

اس شعر میں غالب کہتے ہیں کہ تقدیر نے ہمیں اس زندگی میں اتنی ضربات لگائی ہیں کہ ہم لہولہان ہو گئے ہیں۔ ہم کبھی تو اپنی خرابی قسمت کا شکوہ کرتے ہیں اور کبھی آپ ہی اپنی تقدیر کی کم ظرفی پر مسکرا دئے۔ پہلے کبھی ہمیں اپنے حال پر آپ ہی ہنسی آ جایا کرتی تھی کہ غمِ دوراں سے نڈھال ہوئے بیٹھے ہیں اور ہم اپنے آپ کا ہی تمسخر اُڑایا کرتے تھے۔ کبھی کبھی ہم اپنی بے بسی سے محفوظ ہوا کرتے تھے لیکن اب مقدر کی بے رحمی حد سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس نے ہمیں غمِ جاناں دے کر ہم سے وہ مسکراہٹ بھی چھین لی جو اپنے حال کو دیکھ کر ہی ہمارے لبوں پر آجاتی تھی۔ یہ شعر سادگی و سلاست کے اعتبار سے لاجواب ہے۔ غالب فرماتے ہیں کہ عشق میں آدمی بدحواس اور بد حال ہو جاتا ہے کیونکہ رنج و غم اس کی زندگی کا جز بن جاتا ہے۔ انتدائے عشق میں جب عشق کا غلبہ بڑھتا ہے۔ محبوب نے ابتداء اور آزمائش میں مبتلا کر دیا تو حالت دگرگوں ہو جاتی۔ اس وقت اپنی یہ حالت دیکھ کر خود اپنے ہی حال پر ہنسی آجاتی۔ لیکن اب افسردگی اور پزمردگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ کسی بات پر ہنسی نہیں آتی
مماثل شعر

بے کلی بے خودی کچھ آج نہیں
ایک مدت سے وہ مزاج نہیں


شعر۴

جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زُہد
پر طبعیت اِدھر نہیں آتی
مرکزی خیال

پیشِ نظر شعر میں شاعر اپنی دین کی طرف سے بے رغبتی اور اس دنیا کی طرف کشش بیان کر رہے ہیں۔
تشریح

شاعر کہتا ہے کہ ہم ایک صاحبِ شعور انسان ہیں اور ہم میں عقل و فہم موجودہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں علم و حکمت کی دولت سے نوازا ہے۔ ہمیںاللہ تعالیٰ کے دین کا علم حاصل ہے۔ ہم اسلامی تعلیمات سے مکمل آگہی رکھتے ہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کو کتنی اہمیت حاصل ہے اور تقوی و پرہیزگاری کا کیا صلہ ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنے سے ہماری دنیوی و اخروی زندگی سنور جاے گی۔ ہمیں یہ بھی خبر ہے کہ کس نیکی کا کیا اجر ملے گا اور ان کے کیا ثمرات ہوں گے لیکن ہم کیا کریں کہ عبادت اور دین کی طرف ہماری طبعیت مائل نہیں ہوتی۔ ہم نمازوں اور روزوں کی پابندی نہیں کرتے‘ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات بجا نہیں لاتے‘ ہم دنیا کی دلکش و حسین رنگینیوں میں گم ہو گئے ہیں۔ ہمارے دل کو اس دنیا کی دلکشیوں نے اپنی طرف مائل کر لیا ہے اور ہم اب اس سے منہ پھیرنے کےلئے تیار نہیں۔ ہم اب صرف وہی کرتے ہیں جو ہمارا دل ہم سے کہتا ہے
مماثل شعر

جائے ہی جی نجات کے غم میں
ایسی جنت گئی جہنم میں


شعر نمبر ۵

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چُپ ہو
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
مرکزی خیال

اس شعر میں غالب اپنی خاموش طبعی کا ذکر کر رہے ہیں۔
تشریح

شاعر اس شعر میں فرماتے ہیں کہ عاشق اپنے محبوب کے سامنے زیادہ تر خاموش دو وجوہات ہی کی بناء پر ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ محبوب کے حسن کے جلوﺅں کا اُس کے دل پر اس قدر ہجوم ہوتا ہے کہ وہ ساکت و سامت جلوہ محبوب میں گُم ہو جاتا ہے یا دوسری وجہ یہ ہے کہ مصلحتاً خاموش رہتا ہے کہ کہیں محبوب کی رسوائی نہ ہو یا اُس کے راز فشاں نہ ہوجائیں اور پھر محبوب عاشق سے ناراض ہو جائے۔
غالب کہتے ہیں کہ ہم بھی اپنے محبوب کے تصور میں اس قدر مدہوش ہیں کہ دنیا و مافیہا ہی سے بے خبر ہو گئے ہیں۔ ورنہ ہمیں بھی اندازِ بیاں پر قدرت حاصل ہے اور ہم بھی اظہارِ جذبات پر قادر ہیں۔ مگر بولتے اس لئے نہیں کہ کہیں اظہارِ محبت اور حالِ دل سن کر کہیں ہمارا محبوب خفا نہ ہو جائے یا ہمارے دل کی تحریر پر اپنا نام لکھا دیکھ کر اُس کے مزاجِ نازک پر گراں نہ گزر جائے۔ خاموشی کے پردے میں ہم بھی اپنے عشق کی معراج چاہتے ہیں۔ ہمیں ہر بات کرنا آتی ہے لیکن ہر بات کا اظہار کرنا عقلمندی نہیں ہوتی۔ منزلِ عشق کا حصول ہی وہ مصلحت ہے جس کی خاطر ہم چُپ چاپ ہیں
مماثل شعر

قسمت ہی سے لاچار ہوں اے زوق وگرنہ
سب فن میں ہوں طاق کیا مجھے نہیں آتا


شعر نمبر ۶

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرکزی خیال

اس شعر میں غالب اپنے عالمِ بے خودی کا ذکر کر رہے ہیں۔
تشریح

عشق میں ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ جب آدمی فنانی المحبوب ہو جاتا ہے۔ ہمہ وقت محبوب کے خیال اور تصور میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے وجود محبوب کے وجود میں مدغم ہو جاتا ہے۔ غالب بھی اس شعر میں یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم عشق کی بھول بھلیوں مین اس طرح کھو گئے ہیں کہ اس سے نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ جس راہ پر نکلتے ہیں وہ راہ اسی طرح ہمیں دھوکہ دے رہی ہے جس طرح خضر نے سکندر سے فریب کاری کی تھی۔ ہم راہِ عشق میں اُلجھے چلے جا رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی محبوب کی یاد کو دل سے نکالنا نہیں چاہتے۔ کیونکہ ہم نے اس کے عشق کے مے پئے ہیں۔ اور اس کی آنکھوں سے شباب نے ہمیں پُر کیف کر دیا ہے۔ ہم مدہوشی کی حالت میں دنیا و مافیہا سے بے خبراس پتھر کے صنم کی پرستش کئے چلے جا رہے ہیں۔ ہم اپنی منزل کی تلاش میں سرگرداں ہیں لیکن منزلِ حدنظر تک نہیںبس ہم اسکی یاد کے سہارے اس کے نقش پر چلتے ہی چلے جارہے ہیں۔
مماثل شعر

بے خودی کہاں لے گئی ہم کو
بہت دیر سے انتظار ہے اپنا


شعر نمبر ۷

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے، پر نہیں آتی
مرکزی خیال

اس شعر میں غالب کہتے ہیں کہ وہ بڑے فریاں نصیب ہیں۔
تشریح
جو مصائب کو ہجوم ہو، ناکامیوں اور محرومیوں سے رات بھر سابقہ رہے، کوئی تدبیر کارگر نہ ہو، معمولی معمولی خواہشات اور آرزوﺅں کا خون ہونے لگے تو پھر آدمی زندگی سے بدظن ہو جاتا ہے اورموت کی آرزو کرنے لگتا ہے۔ لیکن موت پر چونکہ اختیار نہیں ہوتا اس لئے عجیب کشمکش میں آدمی مبتلہ رہتا ہے۔
غالب یہی چیز سامنے رکھ کر کہتے ہیں کہ ہماری قسمت میں غمِ جاناں اور غمِ دوراں کے علاوہ کچھ تحریر نہیں۔ ہم نے گردشِ زمانہ کے ہاتھوں بڑے زخم کھائے ہوئے ہیں۔ رنج و الم کی آندھیوں کے درمیان معلق ہیں۔ اور ان آندھیوں کی تنک مزاجی نے ہماری روح کو کچل کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم موت طلب کرتے ہیں لیکن بد نصیبی کی انتہا یہ ہے کہ موت بھی ہم تک نہیں پہنچ پاتی۔ ہماری زندگی کی آج تک کوئی خواہش پوری نہیں ہوئی اور اب موت کی آرزو بھی پوری نہیں ہوتی۔ اور غمِ زمانہ سے ہم روز مر کر زندہ ہوتے ہیں
مماثل شعر

موت بھی وقت پر نہیں آتی
زندگی کے ستم نرالے ہیں


شعر نمبر ۸

کعبہ کس منہ سے جاﺅ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
مرکزی خیال

اس شعر میں غالب اپنی زندگی پر بڑی ہی لطیف انداز میں تبصرہ کر رہے ہیں۔
تشریح

شاعر کہتا ہے کہ آدمی عمر کی آخری منزل میں قدم رکھتا ہے تو پھر اسے آنے والی نئی زندگی کا خیال دامن گیر ہوتا ہے اور وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے غالب! تم نے خانہ کعبہ کی زیارت کا ارادہ کیا ہے جبکہ تمہارا دامن معصیت اور گناہوں سے بھرا ہوا ہے۔ تم نے ساری زندگی شاہد پرستی، شراب خوری اور قمار بازی میں گزار دی۔ اب تمہیں ایسی گناہ آلود زندگی کے ساتھ اللہ کے دربار میں حاضر ہوتے ہوئی شرم نہیں آئے گی؟ تمہارے پاس کونسا عمل ایسا ہے جس کو لے کر تم وہاں جاﺅ گے اور اُس کر کرم طلب کرو گے؟ مطلب یہ کہ ہماری زندگی میں سوائے گناہوں کے اور کچھ نہیں ہے۔ اب آخری وقت میں خدا کے حضور کیا منہ لے کر جائیں گے
مماثل شعر

عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

                                      --------------------------------------------





مرزا اسد اللہ خان غالب غزل 2

شعر نمبر ۱

سب کہاں، کچھ لالہ و گُل میں نُمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
مرکزی خیال

ازل سے آج تک طرح طرح کی خوبیاں رکھنے والے اور بے شمار حسین لوگ مرنے کے بعد مٹی میں مل گئے۔ مگر ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے کارناموں کی بدولت لالہ و گُل بن کر اپنی بہارِ حسن دکھا رہے ہیں۔
تشریح

یہ شعر مرزا غالب کی معنی آفرینی اور جدت خیالی کا ایک خوبصورت اور انوکھا نمونہ ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ یہ بات مسلمہ ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ کوئی اس دنیا میں نہیں آتا۔ لیکن حسن کا جوشِ نمو اور شوقِ نمائش ایک ایسی چیز ہے کہ جو حسن کو دوبارا وجود میں لاتا ہے۔ اور سے لالہ و گُل کی شکل دے کر ایک دفعہ پھر اہلِ نظر کے لئے سامانِ تسکین مہیا کرتا ہے۔ یہ صورتِ حال تمام اہلِ حسن کے لئے ہے جو کہ زندگی کے اسٹیج پر اپنا اپنا کردار ادا کر کے واپس چل دئے اور دوبارہ اس خاک میں مل گئے۔ جو لوگ گمنامی کی زندگی گزارتے ہیں اور صرف اپنی ذات کے لئے جیتے ہیں تو مرنے کے بعد اُن کا وجود انکے نام کے ساتھ اجزائے خاک ہو جاتاہے۔ مگر دوسروں کی خاطر جینے والااپنا نام ہمیشہ کےلئے امر کر جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہوا بھی جو ماضی کے اوراق کو فنا کر دیتی ہے۔ ان کی وجود کو تو خاک میں ملا دیتی ہے مگر اُن کا نام لوگوں کے دلوں میں انمٹ چھوڑ جاتا ہے
مماثل شعر

عجیب یہ تیرا خاک داں ہے اسی کی ہے روشنی جہاں میں
فلک نے اختر بنا لئے چراغِ ہستی بجھا بجھا کر


شعر نمبر ۲

یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
اب مگر نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں
مرکزی خیال

اس شعر میں غالب اپنے ماضی کی فراموشی کا تذکرہ کر رہا ہے۔
تشریح

اس شعر میں غالب کہتے ہیں کہ جب ہمیں غمِ جاناں کا سامنا نہ تھا تو اُس وقت زندگی بڑی حسین و دلکش تھی، صبر و فکر سے پاک تھی اور ہر لحاظ سے مثالی زندگی تھی۔ وہ زمانے بھی ہمےں یاد ہے جب ہم جانِ محفل ہوا کرتے تھے۔ جب زندگی کا لطف دوبالا ہوا کرتا تھا لیکن جب سے گردشِ زمانہ نے عشق کے مرض میں مبتلا کیا ہے اس سقت سے زندگی کی وہ رنگینی باقی نہیں رہی اور صرف دل کے صنم خانے میں اپنے محبوب کا خوبصورت مجسمہ رکھے اسی کی پرستش کئے جا رہے ہیں۔ محبوب کے عشق نے وہ بے خودی کا عالم کر دیا ہے کہ اس کے سوا کچھ یاد ہی نہیں۔ نہ وہ غافل نہ وہ دوست احباب، پر دنیاوی شہرت اور ہر رشتے کو بھول کر ہم اسی کی زلف کے سائے تلے زندگی بتانا چاہتے ہیں۔ اب تو مئے عشق نے اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ اس حسین زندگی کے دھندلکی میں تیری شبیہ بھی ذہن میں رکھ سکوں۔ اس لئے کہ مدہوشی نے ماضی کے ہر عکس کو مٹا دیا ہے
مماثل شعر

ایسا الجھا ہوں غم دنیا میں
ایک بھی خواب طرب یاد نہیں


شعر نمبر ۳

سب رقیبیوں سے ہوں ناخوش پر زنانِ مصر سے
ہے زُلیخا خوش کہ محوِ ماہِ کنعاں ہو گئیں
مرکزی خیال

اس شعر میں غالب حضرت یوسف علیہ السلام کے سحر انگیز حسن کا ذکر کر رہے ہیں۔
تشریح

زیر نظر شعر اُس واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے احسن القصص سے تعبیر کیا ہے۔ قصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام بہت حسین و خوبصورت تھے۔ انہیں اُن کے بھائیوں نے حسن کی وجہ سے کنویں میں گرا دیا تھا۔ بعد میں قافلے والوں کے ہاتھوں فروخت ہوئے۔ عزیز نے اپنی زوجہ زلیخا کو آپ کی پرورش پر مامور کیا۔ لیکن عہد شباب میں آپ کا حسن لاثانی ہو گیا اور عزیزِ مصر کی بیوی آپ کے حسن و جمال کو دیکھ کر فراق ہو گئی۔ جب اس عشق کا چرچا مصر میں ہوا تو وہاں کو عورتیں زلیخا پر آوازیں کستی تھیں کہ تم ایک غلام پر عاشق ہو گئی ہو۔ تم نے اس میں کیا خوبی، کیا حسن اور کیا رعنائی دیکھی جو دل دے بیٹھی۔ اس طرح کے طنز سے تنگ آکر زلیخا نے ایک روز تمام عورتوں کو جمع کیا۔ اُن کے ہاتھوں میں چھری اور لیموں دے دیا کہ جب یوسف کو دیکھو تو کاٹنا۔ پھر حضرت یوسف علیہ السلام کو بلایا گیا۔ وہ سب حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال میں ایسی محو ہو گئیں کہ لیمو کاٹنے کے بجائے اپنی انگلیاں کاٹ بیٹھیں اور کہا کہ یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے۔
اس واقعے کو پیشِ نظر رکھ کر شاعر کہتا ہے کہ عشق میں یہ بات عام ہے کہ عاشق اپنے رقیبوں سے جلتے ہی۔لیکن عام عادت کے خلاف زلیخا مصر کی عورتوں یعنی رقیبوں سے خوش ہے کہ وہ بھی اُسی طرح یوسف پر عاشق ہو گئیں۔ اس خوشی کا سبب یہ تھا کہ یہ عورتیں زُلیخا کو اب کوئی طعنہ نہیں دیں گی
مماثل شعر

شاعرو، نغمہ گرو، سنگ تراشو دیکھو
اُس سے مل لو تو بتانا کہ حیسں تھا کوئی


شعر نمبر ۴

جوئے خون آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فِراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں
مرکزی خیال

اس شعر مےں غالب اپنے محبوب کی جدائی کے کرب کو بیان کر رہا ہے۔
تشریح

اس شعر میں غالب کہتے ہیں کہ شبِ فراق محبوب اور اہلِ عشق کے لئے کٹھن پہاڑ کی حیثیت رکھتی ہے جسے بسر کرنا بے حد دشوار ہوتا ہے۔ ہم بھی اپنے محبوب کی جدائی میں بے حد تڑپ رہے ہیں۔ اس سے دوری اور اُس کی جفا کا کرب ہمیں خون کے آنسو رُلاتا ہے۔ ہم اس کے فراق میں اس قدر روتے ہیں کہ ہمارے آنسو خشک ہو چکے ہیں اور آنکھوں سے آپ کی جگہ خون سیل رواں بہہ نکلا ہے۔ محبوب کا فراق بہت بڑی اذیت ہے۔ اور اس اذیت میں مبتلا ہو کر رونا تو ہمارا حق ہے۔ اس لئے ہمیں کوئی نہ روکے کیونکہ یہ رونے والی دو آنکھےںان دو چراغوں کی مانند ہے کہ جو اس کڑی رات میں ہمیں روشنی کا احساس دلاتی ہیں۔ اور یہی دو شمعیں ہمارے محبوب کو بھی اس بات کا اغساس دلائیں گی کہ ہم اس کے عشق میں کس قدر گرفتار ہیں اور اس کے فراق میں کس قدر عقوبت سے گزر رہے ہیں۔
عاشق کے لئے سب سے کٹھن اور تکلیف دہ فراق کی رات ہوتی ہے کہ اس میں محبوب کی یاد بہت ہی زیادہ تڑپانے لگتی ہے۔ اس وقت دردِ عشق سے بے چین ہو کر عاشق آنسو بہانے لگتا ہے


شعر نمبر ۵

میں چمن میں کی گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبل سُن کر مرے نالے غزلخواں ہو گئیں
تشریح

یہ عام قائدہ ہے کہ مکتب میں استاد کی غیر موجودگی میں طلبہ نہیں پڑھتے لیکن جیسے ہی استاد کو آتا دیکھتے ہیں یا اُس کی آواز سن لیتے ہیں تو اور بھی زیادہ جوش و خروش سی اپنا سبق دہرانے لگتے ہیں۔ شاعر نے اسی نفسیات کو پیشِ نظر رکھ کر شعر کہا ہے۔ کہتا ہے کہ میرا چمن میں جانا تھا کہ ایک مکتب و مدرسہ کا سماں پیدا ہو گیا۔ بلبلیں میرا نالہ سن کر اپنے اپنے نغمے نہایت جوش و خروش سے دہرانے لگیں۔ انہوں نے مجھ سے ہی نالہ و فریاد کرنا سیکھا ہے لیکن میرے نالوں کے مقابلے میں اُن کے نالوں میں درد و اثر کی کیفیت کم ہے۔
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بلبل دلکش آواز سن کر خود بھی نغمہ سرا ہو جاتی ہے۔ میں باغ میں گیا میرے نالے سن کر بلبلیں جوش و مسرت میں غزل سرا ہوگئیں کہ دیکھو ہمارے ہی جیسا نالہ و فریاد کرنے والا آگیا۔ چونکہ میں بھی عاشق ہوں اور بلبل بھی عاشق ہے اس لئے ہم دونوں کی کیفیات ملتی جلتی ہیں۔ میری غزلوں میں وہی کچھ ہے جو اس کے دل کی پکار ہے یا پھر مجھے دیوانہ سمجھ رہے ہیں کیونکہ دیوانے کو دیکھ کر بچے خوش ہوتے ہیں


شعر نمبر ۶

ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
تشریح

خدا واحد ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور خدا کو جو ایک مانتا ہے وہ موحد ہے اور موحد اُن تمام رسوم کو ترک کر دیتا ہے جو ملت و مذہب کی صورت میں نمودار ہوتی ہیں۔ وہ صرف اور صرف ایک خدائے واحد کی پرستش کرتا ہے۔ یہی بات شاعر کہتا ہے کہ ہم موحد ہیں اور ہمارا مذہب یہ ہے کہ ہم رسوم کو مٹائیں اور ترک کریں کیونکہ جب رسمیں ترک ہوتی ہیں تو تمام مذاہب آپ ہی آپ ختم ہو جائیں گے اور ملتیں مٹ کر افزائے ایمان بنتی جائیں گی۔ مطلب یہ کے مذہب و ملت کی آر میں طرح طرح کی رسمیں اختراع کر کے جزوایمان بنا دی جاتی ہیں۔ اس طرح وحدانیت کا تصور خاک میں مل جاتا ہے جو کہ اصل ایمان ہے۔ لیکن موحدین ان رسومات کو ترک کرتے ہیں تو مذاہب و ملت میں خالص وحدانیت کا تصور رہ جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مذاہب مٹ کر ایمان کا جزو ہو جاتے ہیں


شعر نمبر ۷

رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں
مرکزی خیال

زمانے کے نشیب و فراز دیکھنے والے افراد میں مصائب و آلام کا احساس رفتہ رفتہ ختم ہو جاتا ہے۔
تشریح

شاعر نے بڑا خوبصورت اور مﺅثر اندازِ بیان اختیار کرتے ہوئے اس حقیقت کو پیشِ عقل کیا ہے کہ کسی بھی چیز کی انتہا اور زیادتی اس کے احساس و حقیقی اثر کو ختم کر دیتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو بہت مصائب و آلام کا سامنا رہتا ہے اور وہ مشکلات میں گھرا رہتا ہے تو اس کا احساس ِ غم فنا ہو جاتا ہے کہ اسے غم ٰغم معلوم نہیں ہوتا بلکہ معمول کی بات لگتی ہے۔ شاعر کا کہنا ہے کہ میرے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کے واقعات پیش آئے ہیں اور میں بھی اس سے متاثرہ شخص ہوں۔ مجھے اس قدر دکھوں کا سامنا رہتا ہے کہ میں غم کی کیفیت ہی بھلا بیٹھا ہوں۔ اس شعر کو اگر ہم وسیع معنوں میں لیں تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی چیز کی انتہا نقصاندہ ہوتی ہے


شعر نمبر ۸

یوں ہی گر روتا رہا غالب تو اے اہلِ جہاں
دیکھنا اِن بستیوں کو تُم کہ ویراں ہو گئیں
تشریح

اس شعر میں غالب لوگوں سے مخاطب ہو کر کہتاہے کہ اے لوگو! اگر غالب اسی طرح روتا رہا یعنی مسلسل لگاتار بہت شدت سے روتا رہا تو اُس کا یہ رونا ضرور رنگ لائے گا۔ تم دیکھ لو گے کہ اس کی رونے سے بستیاں کی بستیاں ویران ہو جائےں گی کیونکہ اس کے رونے میں درد و اثر کی ایسی کیفیت ہے کہ وہ بستیاں چھوڑ کر ویرانوں میں نکل جائیں گے یا اُس کے آنسو ایسا سیلاب لائیں
گے کہ یہ سیلابِ اشک آبادی کو بہا کر لے جائے گا، مکانوں کو مسمار کر دے گا۔ نتیجتاً پوری بستی ویراں ہو جائے گی




                                * --------------------------------*--------------------------------*